’’پارٹی لائن سے بھٹکنے والوں کا حشر اڈوانی جیسا ہوگا‘‘

بی جے پی اور آر ایس ایس کے عہدیداران لال کرشن اڈوانی کی مثال دے کر پارٹی کارکنان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پارٹی لائن سے ہٹنے پر انھیں سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے اور انھیں عہدہ سے ہٹایا بھی جا سکتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بی جے پی کارکنان کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ پارٹی اور آر ایس ایس کے نظریہ سے نہ بھٹکیں ورنہ اس کے سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ پارٹی لائن سے الگ راہ اختیار کرنے پر کارکنان کو عہدے سے ہٹایا بھی جا سکتا ہے۔ یہ باتیں پارٹی کارکنان سے ایک تربیتی کیمپ کے دوران کہی گئیں۔ اس خصوصی کیمپ میں آر ایس ایس کے ٹرینر بی جے پی کارکنان کو نظریات کے خلاف جانے پر کیا نتائج ہوں گے، اس کے لیے بی جے پی کے سرکردہ لیڈر لال کرشن اڈوانی کا حوالہ دے رہے ہیں۔

انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی خبر کے مطابق اس کیمپ میں کارکنان کو بتایا گیا کہ کس طرح 2005 میں ایل کے اڈوانی کو پاکستان کے بانی محمد علی جناح کو سیکولر بتانے پر بی جے پی صدر عہدہ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اخبار نے اتر پردیش بی جے پی کے نائب صدر جے پی راٹھوڑ سے بات کی ہے۔ راٹھوڑ نے بتایا کہ کوئی بھی شخص، لیڈر یا کارکن پارٹی اور آر ایس ایس کے نظریہ سے اوپر نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’یہی بات پارٹی کیڈر کو بتائی گئی ہے۔ انھیں بی جے پی کے سینئر لیڈروں کی مثال پیش کی گئی ہے جس میں اڈوانی جی بھی شامل ہیں۔ انھیں پارٹی نظریہ سے الگ بیان دینے پر صدر عہدہ سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔‘‘ واضح رہے کہ راٹھوڑ ریاست کے سبھی چھ علاقوں میں منعقد کیے جا رہے تربیتی کیمپوں کی دیکھ ریکھ کر رہے ہیں۔


قابل غور ہے کہ 2005 میں لال کرشن اڈوانی نے پاکستان میں محمد علی جناح کو سیکولر بتایا تھا۔ اڈوانی جناح کے مزار پر گئے تھے اور انھیں سیکولر بتانے کے ساتھ ساتھ ہندو-مسلم اتحاد کا سفیر بھی بتایا تھا۔ اس بیان کے بعد زبردست تنازعہ ہوا تھا اور اڈوانی سے نہ صرف بی جے پی صدر کا عہدہ چھین لیا گیا بلکہ انھیں پارٹی میں بالکل الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔

حالانکہ اڈوانی کو 2009 کے عام انتخاب میں بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم عہدہ کا امیدوار بنایا گیا تھا لیکن اڈوانی اپنے پرانے رنگ میں کبھی نہیں لوٹ پائے۔ اس سے پہلے تک اڈوانی کو کٹر ہندو راشٹروادی لیڈر کی شکل میں جانا جاتا تھا۔ لیکن جناح پر دئیے گئے بیان کے بعد ان کی شبیہ ایسی بگڑی کہ اپنی سیاسی زندگی میں وہ پھر کبھی مضبوطی کے ساتھ ابھر نہیں سکے۔ 2019 کے انتخاب میں تو بی جے پی نے انھیں ٹکٹ بھی نہیں دیا اور ان کی جگہ امت شاہ کو میدان میں اتارا۔ اس کے ساتھ ہی لال کرشن اڈوانی کی سیاسی زندگی کا خاتمہ بھی ہو گیا۔


’ٹائمز آف انڈیا‘ کی خبر کے مطابق کیمپ میں بی جے پی کارکنان کو دوسری مثال اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور ایودھیا تحریک کے دوران پارٹی کے پوسٹر بوائے رہے کلیان سنگھ کی دی جا رہی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ پارٹی لائن سے الگ ہونے پر کس طرح کلیان سنگھ کو 2009 میں بی جے پی سے باہر کر دیا گیا۔ حالانکہ 2014 میں وہ دوبارہ بی جے پی میں شامل ہوئے لیکن انھیں پارٹی کی سرگرم سیاست سے دور رکھا گیا اور گورنر بنا دیا گیا۔ اس کے علاوہ گجرات کے سینئر بی جے پی لیڈر شنکر سنگھ واگھیلا کا حوالہ بھی کارکنان کو دیا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Jul 2019, 12:10 PM