مظفرنگر:مسلم چھوڑیئے،غیرمسلم آبادی والے گاؤں کو بھی ’مثالی گاؤں‘ نہیں بنا پائے

گاؤں کی خوشحالی ہر طرف نظر آتی ہے، کھیتوں میں گنّے کی کھڑی فصلیں اور نوجوانوں کے پاس موجود موٹر سائیکل یہ سوال اٹھاتی ہیں کہ پہلے سے ہی خوشحال گاؤں کو گود لینے کی کیا ضرورت تھی۔

تصویر قومی آواز / آس محمد
تصویر قومی آواز / آس محمد
user

آس محمد کیف

مظفر نگر ہیڈکوارٹر سے 18 کلو میٹر مشرق میں شاہ پور تھانہ حلقہ میں رسول پور جاٹان گاؤں کی آبادی 3 ہزار کے آس پاس ہے۔ مئی 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے اراکین پارلیمنٹ سے کسی ایک گاؤں کو گود لے کر اسے مثالی گاؤں بنانے کی اپیل کی تھی۔ ان کی اس اپیل سے متاثر ہوئے مظفر نگر کے رکن پارلیمنٹ سنجیو بالیان نے رسول پور جاٹان کو گود لیا تھا۔ عام طور پر مثالی گاؤ بنانے کے لیے جس گاؤں کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ کئی طرح کے مسائل سے نبرد آزما ہوتا ہے اور ترقی کے انتظار میں رہتا ہے۔ لیکن رسول پور جاٹان کے اونچے بڑے گھر اس کی خوشحالی کی کہانی کہتے ہیں۔ جاٹ اکثریتی اس علاقہ میں رکن پارلیمنٹ سنجیو بالیان کے انتخابی عمل پر ووٹنگ والے دن ہی سوال اٹھ گئے تھے جو اب تک قائم ہے۔

2014 میں ووٹنگ والے دن یہاں 97 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی جس پر اپوزیشن امیدواروں نے بوتھ کیپچرنگ کا الزام عائد کیا تھا اور بعد میں یہاں دوبارہ ووٹنگ ہوئی۔ گاؤں میں 75 فیصد جاٹ ہیں اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قریب کے گاؤں کاکڑا کے دو لوگ مظفر نگر فساد میں مارے گئے تھے۔ رسول پور جاٹا ن میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ گاؤں کے سندیپ کمار کہتے ہیں کہ ’’ترقی کے لحاظ سے دیکھیں تو رکن پارلیمنٹ کے ہی لوک سبھا حلقہ کے 100 سے زائد گاؤں ایسے ہیں جہاں بنیادی سہولیات نہیں مل رہی ہیں۔ رسول پور جاٹان تو زمینداروں اور بااثر لوگوں کا گاؤں ہے، حالانکہ کچھ مسائل یہاں بھی ہیں۔ ‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اس گاؤں کو چودھریوں کا گاؤں کہا جاتا ہے اور زیادہ تر لوگوں کے پاس اپنی گاڑی ہے، شہر میں ان کے ٹھکانے ہیں۔ یہاں تک کہ اس گاؤں نے پرشانت بالیان جیسا آئی اے ایس افسر بھی دیا ہے اور انکت جیسا قومی کبڈی کھلاڑی بھی۔ گاؤں کی ایک بیٹی نندنی بالیان ریلوے اے آر ایم بھی ہے۔‘‘

گاؤں کی خوشحالی ہر طرف نظر آتی ہے، کھیتوں میں گنّے کی بڑی فصلیں اور نوجوانوں کے پاس موجود موٹر سائیکل یہ سوال اٹھاتی ہے کہ پہلے سے ہی خوشحال گاؤں کو گود لینے کی کیا ضرورت تھی۔ اس گاؤں کے اکثر لوگ خوشحال ہیں اور زیادہ تر فیملی کے گھر شہروں میں بھی ہیں۔ امیروں کے اس گاؤں کو جب سنجیو بالیان نے گود لیا تو گاؤں کی ترقی میں نہ انھوں نے ذاتی طور پر کوئی دلچسپی لی اور نہ ہی یہاں کے باشندوں نے۔ لیکن اس گاؤں میں پنچایت میں بہت دلچسپی لی جاتی ہے۔ گزشتہ سال یہاں پنچایت ہوئی جس میں رشتہ توڑنے والے لڑکے کی دو سال تک شادی نہیں ہونے دینے کا فرمان جاری کر دیا گیا۔ جاٹ برادری کے چودھریوں کا فرمان نہ ماننے کی ہمت کون کرتا! فساد کے بعد ملزمین کی گرفتاری کے خلاف پنچایت بھی اسی گاؤں میں لگتی تھی۔ شاہ پور ہنگامہ کے بعد یہاں ایک بڑی پنچایت ہوئی جس میں بی جے پی کے سابق ریاستی صدر لکشمی کانت واجپئی پہنچے تھے۔ انتظامیہ سے ٹکراؤ کے ہر موقع پر رسول پور سب سے آگے نظر آتا ہے۔ شاہ پور کے 43 سالہ باشندہ اکرم بتاتے ہیں کہ مثالی گاؤں کے انتخاب کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ اس گاؤں میں ایک بھی مسلم نہیں ہے۔ ویسے اب گاؤں کے لوگوں کو اس بات کا غصہ ہے کہ ان کا صرف استعمال کیا گیا جب کہ گاؤں میں ترقی کے نام پر کچھ بھی نہیں ہوا۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی پیش قدمی پر ریاستی وزیر مملکت برائے زراعت اور مقامی رکن پارلیمنٹ سنجیو بالیان نے اکتوبر 2014 میں مثالی گاؤں کی شکل میں رسول پور جاٹان کو گود لیا تھا۔ 1952 میں وجود میں آئی گرام پنچایت رسول پور جاٹان کے تقریباً سبھی لوگ گنّے کی کھیتی پر منحصر ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس گاؤں کی خواندگی شرح صد فیصد ہے۔ اپنی قابلیت کے دم پر کئی لوگ گاؤں کا نام روشن کرتے رہے ہیں۔ کچھ لوگ گاؤں میں ایسے ہیں جو شاہ پور اور مظفر نگر میں اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ رسول پور جاٹان کی خوشحالی کا یہ عالم ہے کہ اکثر مکانات پختہ نظر آتے ہیں۔ یہاں کے بچے شہروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کئی تو ’گروکل کانگڑی‘ اور ’گروکل جھجر‘ میں تعلیم حاصل کر آچاریہ بھی بن چکے ہیں۔

گاؤں میں خوشحالی کی بات کی جائے تو جتیندر بالیان کی بیٹی پوجا بالیان کالکا ڈینٹل کالج میرٹھ میں پروفیسر ہیں، گاؤں کے سابق وزیر سدھیر بالیان کے چچا ستیندر کمار امریکہ میں جغرافیہ کے ماہر ہیں۔ دوسرے چچا نریندر ورما نیشنل ریسرچ سنٹر رڑکی میں ڈائریکٹر ہیں۔ نریندر ورما کے بیٹے نویندو رگھوونشی آئی آئی ایم احمد آباد سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ گاؤں کے کئی نوجوان ایڈمنسٹریٹو سروس میں کام کرتے ہوئے گاؤں کا نام روشن کر رہے ہیں۔

جہاں تک گاؤں میں موجود کچھ مسائل کی بات ہے، تو 2650 ووٹروں والے اس گاؤں میں نہ کالج ہے اور نہ ہی کھیل کا میدان ہے۔ ایک ہائی پروفائل گاؤں ہونے کے بعد بھی یہاں اسپتال کا نام و نشان نہیں۔ سنجیو بالیان نے وعدہ کیا تھا کہ اسپتال کھولے جائیں گے اور کالج کا قیام بھی عمل میں آئے گا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ بینک برانچ کھولے جانے کا وعدہ بھی انھوں نے پورا نہیں کیا۔ سوال کیے جانے پر وہ کہتے ہیں کہ ’’زمین نہ ملنے کی وجہ سے کالج، کھیل کا میدان، بینک برانچ اور اسپتال کی تعمیر نہیں ہو پائی ہے۔‘‘ بات صاف ہے کہ مثالی گاؤں بنانے کے لیے جب اس گاؤں کا انتخاب سنجیو بالیان نے کیا تھا تو امید کی گئی تھی کہ اسپتال، بینک برانچ، کھیل کا میدان وغیرہ جیسی سہولیات میسر ہو جائیں گی، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب بی جے پی کے لوگ ہی ان پر جانبدار ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔

یہاں یہ بتانا بھی دلچسپ ہے کہ گاؤں میں شام کو بجلی نہیں رہتی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہاں 25 سولر اسٹریٹ لائٹس لگی ہوئی ہیں جن میں سے 10 خراب ہیں۔ 28 سرکاری ہینڈ پمپ ہیں جن میں سے 20 کا پانی پینے لائق نہیں کیونکہ ان میں ٹی ڈی ایس زیادہ ہے۔ گاؤں میں صفائی ملازمین ہیں لیکن جگہ جگہ گندگی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ گاؤں والوں کو علاج کے لیے 20 کلو میٹر دور ضلع اسپتال جانا پڑتا تھا، آج بھی جانا پڑتا ہے۔ اس گاؤں میں گزشتہ کچھ سالوں میں بہتر ہوا ہے تو وہ بیت الخلاء کا نظام ہے۔ جب سے رسول پور جاٹان کو مثالی گاؤں بنانے کے لیے منتخب کیا گیا ہے اس کے بعد 130 گھروں میں بیت الخلاء بنائے گئے ہیں اور اب صرف 35 گھر اس سے محروم ہیں۔ لیکن اس معاملے میں گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پورا کام گرام پردھان سنیتا چودھری نے کروایا ہے۔ سنیتا کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ گاؤں کی حالت مزید بہتر نہ ہونے کی وجہ انتظامی لاپروائی ہے۔

اس وقت گاؤں میں سنجیو بالیان کے خلاف ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مقامی باشندے میڈیا سے بات چیت کے دوران اس ناراضگی کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی امیدوار کو یہاں سے منھ کی کھانی پڑے تو کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔