لائیو پروگرام میں پی ایم مودی سے پوچھا گیا مشکل سوال تو بی جے پی ہوئی محتاط

وزیر اعظم نریندر مودی سے سوال پوچھنے والے کارکنان کو موبائل سے شوٹ کیا ہوا اپنا ویڈیو 48 گھنٹے پہلے ہی بھیجنا پڑ رہا ہے۔ سبھی کارکنان کو اس بات سے مطلع کرایا جا چکا ہے کہ وہ اپنے سوالات پہلے بھیج دیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

بی جے پی اور پی ایم مودی کو اب خود اپنے ہی کارکنان پر بھروسہ نہیں رہا۔ گزشتہ دنوں ایک لائیو پروگرام کے دوران بی جے پی کے ایک کارکن نے ایسا سوال پوچھ لیا تھا جس سے پی ایم مودی کو سبکی کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ اس کے بعد سے پارٹی نے احتیاط برتتے ہوئے لائیو پروگرام میں سوال پوچھنے والوں کی تحقیق کرنی شروع کر دی ہے۔ ان کارکنان کے ویڈیو جانچ کے لیے پہلے ہی منگائے جا رہے ہیں جو پی ایم مودی سے سوال پوچھیں گے۔

’ٹائمز آف انڈیا‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی سے سوال پوچھنے والے کارکنان کو موبائل سے شوٹ کیا ہوا اپنا ویڈیو 48 گھنٹے پہلے ہی بھیجنا پڑ رہا ہے۔ سبھی کارکنان کو اس بات سے مطلع کرایا جا چکا ہے۔ لائیو پروگرام کے دوران سوال پوچھنے والوں کی کئی بار جانچ کی جا رہی ہے۔ ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بی جے پی نہیں چاہتی کہ جو واقعہ پڈوچیری میں ہوا وہ پھر سے ہو۔ نریندر مودی ایپ (نمو ایپ) پر کارکنان خود سوال شوٹ کر کے بھیج رہے ہیں اور بعد میں ان میں سے کچھ سوالات کا انتخاب کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ دنوں ’میرا بوتھ، سب سے مضبوط‘ پروگرام کے تحت تمل ناڈو اور پڈوچیری کے کارکنان سے پی ایم لائیو بات چیت کر رہے تھے۔ اس دوران ایک کارکن نے مرکزی حکومت کے ذریعہ ٹیکس کا بوجھ لادے جانے کی شکایت کر دی۔ انھوں نے صاف صاف کہا کہ پی ایم مودی کی پالیسیوں سے مڈل کلاس کو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ واقعہ سرخیوں میں رہا تھا۔ اس سوال سے پی ایم مودی سکپکا گئے تھے اور انھوں نے جواب میں شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ ایک کاروباری ہیں اس لیے کاروباریوں کی بات کر رہے ہیں۔

’ٹائمز آف انڈیا‘ میں شائع اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کانگریس لیڈر پرینکا چترویدی نے پی ایم مودی اور وزیر اسمرتی ایرانی پر طنز کسا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ’’معزز اسمرتی ایرانی جی، ہم نے آپ کے ورلڈ فیمس ٹیوشن کلاس کے لیے ایک اسٹوڈنٹ کو ڈھونڈ لیا ہے۔ شاید اس اسٹوڈنٹ کو ٹیوشن کے سہارے جواب دینا آ جائے اور ونکّم کا سہارا لینے کی ضرورت نہ پڑے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔