میر عثمان علی کی یوم پیدائش: حیدرآباد کے آخری فرمانروا کی خدمات یاد کرنے کا دن

اس موقع پر مسجد جودی کنگ کوٹھی میں واقع مزار پر ان کے خاندان کے ارکان کے علاوہ مختلف تنظیموں کی جانب سے چادر گل پیش کر کے، ان کی حیدرآباد بالخصوص عوام کے لئے نمایاں خدمات کو یاد کیا جاتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

حیدرآباد: سابق ریاست حیدرآباد کے آخری فرمانروا آصف سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر کی یوم پیدائش تقاریب 6 اپریل کو منائی جاتی ہیں۔ اس موقع پر مسجد جودی کنگ کوٹھی میں ان کی مزار پر ان کے خاندان کے ارکان کے علاوہ مختلف تنظیموں کی جانب سے چادر گل پیش کی جاتی ہیں اور ان حیدرآباد بالخصوص عوام کے لئے ان کی نمایاں خدمات کو یاد کیا جاتا ہے۔

نظام حیدرآباد کا شمار نہایت ہی دور اندیش حکمرانوں میں ہوتا ہے۔انہیں جدید حیدرآباد کے اولین معمار بھی کہا جاتا ہے،حیدرآباد کی ترقی کا سہرا ان کے سرجاتا ہے جنہوں نے رعایا کو اپنی دونوں آنکھوں سے تعبیر کیا اور ان کی ترقی ، فلاح وبہبود کے لئے ہر شعبہ حیات میں نمایاں خدمات انجام دیں۔وہ نظام حیدرآباد کے نام سے مشہور تھے اور 1724ء سے 1948ء تک قائم ریاست حیدرآباد کے آخری حکمران تھے۔

نظام الملک کا خطاب مملکت آصفیہ کے حکمرانوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ سطح مرتفع دکن میں یہ حکومت مغلوں کے زیر اثر نواب میر قمر الدین خان نے قائم کی تھی جنہوں نے 1724ء میں آصف جاہ کا لقب اختیار کیا ۔ 1798ء کے بعد سے ریاست حیدرآباد برطانوی ہند کے زیر اثر ریاستوں میں سے ایک تھی تاہم نظام داخلی امور خود حل کرتے تھے۔1947ء میں تقسیم ہند تک دو صدیوں میں سات نظاموں نے حیدرآباد ریاست پر حکومت کی۔ تقریبا یہ تمام ہی آصف جاہی حکمران ادب، فن، طرز تعمیر، ثقافت، زیورات و جواہر کے بہت بڑے سرپرست و دلدادہ تھے۔

نظام حیدرآباد نواب میرعثمان علی خان کی حکومت 17 ستمبر 1948ء کو ہند فوج کے آپریشن پولو تک قائم رہی جس کے ذریعہ اس وقت کی حیدرآباد ریاست کو ہند یونین میں ضم کیاگیا۔ موجودہ کرناٹک اور مہاراشٹرا کے کئی حصے اس وقت کی حیدرآباد ریاست کا حصہ تھے۔ 1956ء میں لسانی بنیادوں پر اس ریاست حیدرآباد کو توڑ کر پڑوسی ریاستوں آندھرا پردیش، کرناٹک اور مہاراشٹر میں تقسیم کر دیا گیا۔

شہر حیدرآباد کی جامعہ عثمانیہ ، مشہور عثمانیہ اسپتال ، صدر شفاخانہ یونانی ، نظامس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس ، عثمان ساگر، ضلع اور شہر عثمان آباد،عثمانیہ یونیورسٹی یہ تمام چیزیں ان ہی کی بنائی ہوئی ہیں اور ان ہی کے نام سے منسوب ہیں۔ انھوں نے حیدرآباد کی کئی اہم عمارتیں، جیسے، حیدرآباد ہائیکورٹ، اسمبلی ہال، باغ عامہ، آصفیہ لائبریری، نظام کالج، حمایت ساگر، ،نظام شوگر فیکٹری وغیرہ کی تعمیرکروائی۔اپنے حکمرانی کے دوران انہوں نے کئی تعلیمی اصلاحات متعارف کرایا۔

حیدرآباددکن ایک ایسی ریاست تھی جس کا خود کا عوامی نظام ٹرانسپورٹ، محکمہ ڈاک،محکمہ ریلویز تھا۔ ایچ ای ایچ نواب میر عثمان علی خان ایک موثر منتظم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ان کی پیدائش 6اپریل 1886کو ہوئی تھی۔وہ 1911ء میں تخت نشین ہوئے تھے۔ان کے دور میں علما، مشائخ، مساجد و مدارس اور ہر مذہب کے عبادت خانوں کو معقول امداد ملتی تھی۔ ان کے عہد میں شہر حیدر آباد کی ازسرنو تعمیر ہوئی۔ انہوں نے کئی اداروں کو بہت بڑا عطیہ دیا ہے جس میں جامعہ نظامیہ اور دارالعلوم دیوبند شامل ہیں۔

ہند ۔چین جنگ کے موقع پر نظام حیدرآباد نے ''5000 کلوسونا دیا تھا ۔ جامع مسجد دہلی کو 1948 کے دوران، نظام حکومت سے مسجد کے فرش کے حصے کی مرمت کے لئے 75000 عطیہ دینے کی گذارش کی گئی جس پر انہوں نے 3 لاکھ روپے کا عطیہ دیا ۔میر عثمان علی خان نے 24 فروری 1967ء کو کنگ کوٹھی پیالس میں اپنی آخری سانس لی۔ان کو مسجد جودی میں دفن کیا گیا۔ان کی مقبولیت کا ثبوت یہ ہے کہ تقریبا دس ملین افراد نماز جنازہ میں شامل ہوئے۔ان کی وفات پر آندھرا پردیش کی حکومت نے خصوصی اخبار جاری کیا، جس میں ان کی موت کا ذکر تھا۔حکومت نے 25 فروری، 1967ء کونظام سرکار کی موت پر''ریاستی ماتم'' کا اعلان کیا گیا۔سرکاری دفاتر بند کئے گئے تھے۔ریاست بھر میں تمام سرکاری عمارتوں میں سرنگوں کئے گئے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔