بلقیس بانو معاملہ: اجتماعی عصمت دری اور قتل کے مجرموں کو اصولوں کے خلاف دی گئی رہائی

رہائی کا یہ فیصلہ بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے ذریعہ بیان کردہ معافی کے اصولوں کے خلاف ہے، ان مجرموں نے محض 15 سال کی سزا کاٹی ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

گجرات حکومت نے ان 11 مجرموں کو جیل سے رہا کر دیا ہے جو 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری اور ان کے کنبہ کے 7 افراد کو قتل کرنے کی پاداش میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ رہائی کا یہ فیصلہ بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے ذریعہ بیان کردہ معافی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ان مجرموں نے محض 15 سال کی سزا کاٹی ہے۔

امت شاہ کی زیر قیادت وزارت داخلہ نے ’آزادی کے امرت مہوتسو‘ کے موقع پر تمام ریاستوں کو 10 جون کو بھیجے گئے خط میں کہا ہے کہ ریاستیں بعض جرائم کے لیے ان سزا یافتہ قیدیوں کو رہا کر سکتی ہیں، جنہوں نے اپنی سزا کی مدت کا 50 فیصد یا اس سے زیادہ حصہ جیل میں گزار لیا ہے۔ تاہم، خط میں واضح کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جنہیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے یا جن کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا گیا ہے، جو لوگ عصمت دری یا بچوں کے جنسی استحصال کے مجرم ہیں، جو لوگ جہیز کے لیے قتل کے قصوروار قرار دئے جا چکے ہیں، جو لوگ پوٹا، فیما، این ڈی پی ایس اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے اور بدعنوانی کرنے کے معاملہ میں مجرم قرار دئے جا چکے ہیں، ایسے لوگوں کو معافی نہیں دی جا سکتی۔


جن 11 مجرموں کو قبل از وقت رہائی دی گئی ان میں جسونت بھائی نائی، گووند بھائی نائی، شیلیش بھٹ، رادھے شیام شاہ، بپن چندر جوشی، کیسر بھائی ووہانیا، پردیپ موردھیا، بانکا بھائی ووہانیا، راجو بھائی سونی، متیش بھٹ اور رمیش چاندنا شامل ہیں۔ رادھے شیام شاہ نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں گجرات حکومت کو ان کی قبل از وقت رہائی کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت کی درخواست کی گئی تھی۔ اس درخواست نے ہی عمر قید کی سزا پانے والے تمام 11 مجرموں کی جیل سے باہر نکلنے کی راہ ہموار کی۔

جنوری 2008 میں ممبئی کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے انہیں اجتماعی عصمت دری کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی اور بعد میں بمبئی ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ اکیس سالہ بلقیس بانو کو جس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا گیا وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، نیز ان کی 3 سالہ بچی سمیت خاندان کے 7 افراد کو 3 مارچ 2002 کو قتل کر دیا گیا تھا۔ بلقیس بانو کو اس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب سابرمتی ایکسپریس کے ایک کوچ کو جلانے کے واقعہ میں 59 کارسیوکوں کی موت کے بعد بھڑکے تشدد کے دوران وہ اپنی جان بچاکر احمد آباد کے قریب کھیتوں میں چھپی ہوئی تھیں۔


وزارت داخلہ کے خط میں واضح کیا گیا ہے کہ ریاستی حکومت کو آئین ہند کے آرٹیکل 161 کے تحت اختیارات کے استعمال میں غور و خوض اور منظوری کے لیے گورنر کے سامنے اپنی سفارشات پیش کرنی ہوں گی۔ فی الحال، آچاریہ دیوورت ریاست گجرات کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اس معافی کا اطلاق سزا یافتہ قیدیوں کے مخصوص زمروں پر ہونا تھا، جنہوں نے جیلوں میں اپنی مدت کے دوران مسلسل حسن سلوک کا مظاہرہ کیا، خاص طور پر جن کو گزشتہ 3 سالوں میں کوئی سزا نہیں دی گئی۔

مرکزی حکومت کی طرف سے جاری کردہ رہنما خطوط کے مطابق، ان لوگوں کو معافی دی جا سکتی ہے:

• 50 سال یا اس سے زیادہ عمر کی خواتین اور ایسے خواجہ سرا، جنہوں نے اپنی کل سزا کی مدت کا 50 فیصد حصل جیل میں گزار لیا ہے۔

• 70 فیصد یا اس سے زیادہ معذوری والے جسمانی طور پر معذور مجرم، جنہوں نے اپنی سزا کی مدت کا 50 فیصد حصہ جیل میں گزار لیا ہے۔

• 60 سال اور اس سے زیادہ عمر کے مرد مجرم، جنہوں نے اپنی سزا کی مدت کا 50 فیصد حصہ جیل میں گزار لیا ہے۔

• غریب یا نادار قیدی جو اپنی سزا پوری کر چکے ہیں لیکن جرمانہ ادا نہیں کر پانے کی وجہ سے جیل میں قید ہیں۔

• حد سے زیادہ بیمار مجرم۔

• وہ افراد جنہوں نے 18-21 سال کی عمر کے درمیان کوئی جرم کیا ہے اور ان کے خلاف کوئی اور فوجداری مقدمہ زیر التوا نہیں ہے اور جنہوں نے اپنی سزا کی مدت کا 50 فیصد حصہ جیل میں گزار لیا ہے۔

• سزا یافتہ قیدی جنہوں نے اپنی کل سزا کا دو تہائی (66 فیصد) حصہ مکمل کر لیا ہے۔


مزید برآں، خط میں واضح کیا گیا ہے کہ ریاستی حکومتیں کسی بھی جرم کو معاف کر سکتی ہیں، تاہم اس کے لئے ایک اسکریننگ کمیٹی تشکیل دی جانی چاہئے اور اس کے ارکان ریاست کے محکمہ داخلہ کے انچارج ایڈیشنل چیف سکریٹری/ پرنسپل سکریٹری/ سکریٹری، ریاست کے قانون اور انصاف کے محکمے کے انچارج اور ریاست کے ڈی جی/آئی جی جیل خانہ جات ہوں گے۔

دریں اثنا، بلقیس بانو کے شوہر یعقوب رسول نے کہا ہے کہ خاندان ابھی رہائی پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ یہ خاندان کسی مقررہ پتے کے بغیر رہ رہا ہے حالانکہ سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسے اپنی پسند کی جگہ پر رہائش فراہم کرے، اس کے باوجود وہ 2002 سے خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہا ہے۔ سال 2022 میں گجرات فسادات کے وقت وزیر اعظم نریندر مودی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے اور ان پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے مسلم مخالف قتل عام کو روکنے کے لیے جلد از جلد کارروائی نہیں کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔