بلقیس بانو معاملہ: سزا سنانے والے جج نے مجرموں کی رہائی کو بُری نَظیر اور ناانصافی قرار دیا

بلقیس بانو معاملہ کی سماعت کرنے والی بنچ کی سربراہی کرنے والے سابق جج جسٹس یو ڈی سالوی کا کہنا ہے کہ "مجرموں کی رہائی اور رہنماؤں کی طرف سے جشن منانا ایک بری مثال قائم کرتا ہے۔"

تصویر قومی آواز / وپن
تصویر قومی آواز / وپن
user

سنتوشی گلاب کلی مشرا

سنتوشی گلاب کلی مشرا

بلقیس بانو معاملہ میں 11 افراد کو عمر قید کی سزا سنانے والے جسٹس یو ڈی سالوی نے حکومت کی طرف سے ان کو رہا کئے جانے پر سوالات اٹھائے ہیں اور زور دے کر کہا کہ جرم کی شدت وقت کے ساتھ کم نہیں ہوتی خواہ وہ 1992 ہو، 2002 ہو یا 2014 ہو۔ خیال رہے کہ گجرات حکومت نے حال ہی میں گجرات فسادات کی متاثرہ بلقیس بانو کی عصمت دری کے قصور وار 11 افراد کو رہا کر دیا ہے۔ اس کے بعد ایک بہت بڑا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے، ریپ اور قتل کے گھناؤنے جرم کے لیے معافی کی پالیسی پر ملک بھر میں احتجاج جاری ہے۔

گجرات میں سال 2002 میں پانچ ماہ کی حاملہ بلقیس بانو کو 11 افراد نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور ان کی 3 سالہ بیٹی کو پتھر پر پٹخ دیا تھا، جس سے اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔ گجرات فسادات بھڑکنے کے بعد بلقیس بانو اپنے کنبہ کے 14 افراد کے ساتھ ایک ٹیمپو میں جا رہی تھیں، تبھی تقریباً 20-30 افراد نے ان پر حملہ کر دیا۔ ہجوم نے ان کے خاندان کے 14 افراد کا قتل کر دیا، تاہم جائے وقوعہ سے صرف 7 کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔


معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر اس مقدمہ کو ریاست گجرات سے مہاراشٹرا منتقل کر دیا گیا تھا۔ قتل عام کے دوران تنہا زندہ بچ جانے والی بلقیس نے انصاف کی ایک طویل جنگ لڑی اور ممبئی کی سیشن عدالت کے اس وقت کے جج یو ڈی سالوی نے ان کو انصاف فراہم کیا۔

غیر سرکاری تنظیم ’یونائیٹڈ اگینسٹ ان جسٹس اینڈ ڈسکریمنیشن‘ کے زیر اہتمام ایک پریس کانفرنس کے دوران ریٹائرڈ جسٹس یو ڈی سالوی نے کہا کہ اس طرح کے گھناؤنے جرم کا سامنا کرنے والی متاثرہ کو انصاف فراہم کرنا ان کا فرض تھا۔ سالوی نے میڈیا کے ساتھ گفتگو کے دوران اس بات پر ناراضگی ظاہر کی کہ کس طرح رہائی کے بعد مجرموں کا پھولوں کے ہاروں اور مٹھائیوں سے استقبال کیا گیا۔


جسٹس سالوی نے عدلیہ کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''میں عدلیہ کا حصہ تھا۔ فیصلے میں غلطی یا تصحیح کے امکان کو جانچنے کے لیے نظام میں عدالتوں کی کثیر سطحیں ہیں۔ ‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ انہوں نے عدلیہ کے طریقہ کار کی پیروی کی تھی۔

سالوی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی سیشن عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ انہوں نے مزید کہا ’’سیشن عدالت میں دی گئی یہ سزا عرضی گزار اور ملزمان دونوں کی طرف سے پیش کردہ ثبوتوں کا نتیجہ ہے۔ مکمل جانچ کے بعد ضابطہ فوجدرای کے مطابق شواہد کو ریکارڈ پر کیا جاتا ہے، عدالتوں میں کہانی سنانے کی روایت نہیں ہوتی۔ دونوں فریقین کے قابل وکلا اپنے ممکنہ دلائل اور شواہد کے ساتھ اپنے اپنے مقدمات پیش کرتے ہیں۔ میرے سامنے ٹھوس ثبوت پیش کیے گئے تھے، جس کے بعد 11 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔‘‘


انہوں نے کہا کہ مجرموں کو معاف کرنے کی پالیسی کے حوالے سے حکومت کا یہ طریقہ توجہ طلب ہے۔ سالوی نے مزید کہا کہ فیصلوں پر عمل درآمد حکومت کی جانب سے کرائی جاتی ہے اور مجرموں کی سزا معاف کرنے کے حوالہ سے فیصلہ کرنا بھی حکومت کا کام ہوتا ہے۔

سالوی نے کہا ’’مجرموں کی سزا معافی تعزیرات ہند کی دفعہ 432 سے 435 کے تحت کی جاتی ہے۔ جس کی بنیاد پر گجرات حکومت کو سزا معاف کرنے میں اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس جج کے سامنے اپیل کی گئی تھی اس کی رائے بھی لی جانی چاہئے۔ تاہم، اس معاملے میں مجھ سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ اس معاملہ کی تحقیقات سی بی آئی نے کی تھی، لہذا مرکزی حکومت کے مشورے پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ مرکزی حکومت نے رہائی سے پہلے معافی کے تعلق سے کیا رائے دی تھی۔ اگر اصول و ضوابط پر عمل نہیں کیا گیا، تو یہ انصاف کے لیے لڑنے والی خاتون کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘‘


انہوں نے یہ بتایا کہ 1992 کی پالیسی میں گھناؤنے مجرموں کے لیے سزا معاف کرنے کا التزام ہے۔ تاہم 2014 کی نئی پالیسی میں عصمت دری اور دہشت گردی جیسے جرائم میں مجرموں کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ سابق جج نے مزید کہا کہ "میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ حکومت کو ان 11 مجرموں کی سزا معافی کے فیصلہ پر غور کرنا چاہیے۔ شہری اور تنظیمیں بلقیس بانو کے لئے انصاف کو یقینی بنانے کے حوالہ سے مناسب قانونی راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */