بلقیس بانو ریپ کیس کے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی درخواستوں پر  سپریم کورٹ کا فیصلہ پیر کو

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جاننا چاہا کہ استثنیٰ کی پالیسی کو منتخب طور پر کیوں نافذ کیا جا رہا ہے۔ ہر قصوروار کو اصلاح کا موقع دیا جائے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

یو این آئی

سپریم کورٹ 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے کنبہ کے کئی افراد کے قتل کے معاملے میں 11 قصورواروں کی قبل از وقت رہائی کے جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر پیر کو اپنا فیصلہ سنائے گی۔

جسٹس بی وی ناگرتن اور جسٹس اجل بھوئیاں کی بنچ نے 12 اکتوبر 2023 کو بلقیس کی درخواست اور دیگر کی درخواستوں کی سماعت مکمل کرنے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران کہا تھا کہ جرم 'خوفناک' ہے، لیکن وہ 'جذبات' میں نہیں آئے گی اور صرف قانون کی بنیاد پر ہی کیس کا فیصلہ کرے گا۔ سپریم کورٹ نے تب یہ بھی کہا تھا کہ گجرات حکومت اس معاملے میں اپنے دائرہ اختیار کا استعمال کرے گی کیونکہ وہاں جرم ہوا تھا۔


بلقیس بانو  نے نومبر 2022 میں عدالت سے رجوع کیا۔ اپنی درخواست میں اس نے دلیل دی تھی کہ یہ 'سب سے بھیانک جرائم میں سے ایک تھا' ۔ ایک خاص کمیونٹی کے خلاف نفرت کی وجہ سے انتہائی غیر انسانی تشدد اور ظلم تھا۔

بلقیس  بانو کے علاوہ آزاد صحافی ریوتی لاؤل، سی پی آئی (ایم) لیڈر سبھاشنی علی اور لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر روپ ریکھا ورما اور نکالے گئے ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا نے بھی قصورواروں کو دی گئی استثنیٰ کے خلاف ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کی تھی۔


درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ اگست 2022 میں مجرموں کو رہا کرنے کا حکم کی توہین، غیر اخلاقی اور امتیازی تھا۔اس کے برعکس، مجرموں نے دعوی کیا تھا کہ ایک بار جیل سے رہا ہونے کے بعد آئین کے آرٹیکل 32 کے تحت دائر درخواستوں کے پیش نظر ان کی آزادی کو متاثر یا مداخلت نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ ضابطہ فوجداری کے تحت بھی متاثرین اور شکایت کنندگان کا ایک محدود کردار ہوتا ہے۔ ایک بار سزا سنائے جانے کے بعد متاثرہ کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جاننا چاہا کہ استثنیٰ کی پالیسی کو منتخب طور پر کیوں نافذ کیا جا رہا ہے۔ ہر قصوروار کو اصلاح کا موقع دیا جائے۔ بنچ نے پوچھا تھا کہ سوال یہ ہے کہ کیا عمر قید کی سزا پانے والے تمام مجرموں کو 14 سال بعد معافی کا فائدہ دیا جا رہا ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔