بہار کے انتخابی موسم کی پیش گوئی: نتیش کی قیادت پر سوال، الیکشن کمیشن کی کارکردگی زیرِ بحث

بہار کے انتخابات میں نتیش کمار کی قیادت، جے ڈی یو کی اندرونی کشمکش اور الیکشن کمیشن کی شفافیت پر سوالات نے سیاسی ماحول کو غیر یقینی بنا دیا ہے، عوام تبدیلی کی راہ دیکھ رہے ہیں

<div class="paragraphs"><p>نتیش کمار/ تصویر: آئی اے این ایس</p></div>
i
user

اے جے پربل

بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کے سیاسی مستقبل پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ تقریباً دو دہائیوں سے اقتدار میں قائم نتیش نے وقت اور حالات کے مطابق رخ موڑنے کی اپنی صلاحیت بارہا ثابت کی ہے۔ لیکن اس بار معاملہ ان کی بگڑتی صحت اور پارٹی پر کمزور ہوتی گرفت کا ہے، جس نے کئی قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔ ان کے حالیہ عوامی رویے کو دیکھ کر یہ محض افواہ نہیں لگتی۔

16 اکتوبر کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ بہار کے دو مرحلوں والے انتخابات (6 اور 11 نومبر) این ڈی اے نتیش کمار کی قیادت میں لڑے گا، مگر وزیراعلیٰ کون ہوگا، اس کا فیصلہ انتخاب کے بعد اتحادی جماعتیں مل کر کریں گی۔ یہ بات نتیش کی پوزیشن کے غیر یقینی ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔

ماہرین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ کیا نتیش اب بھی اقتدار میں رہنے کا دم رکھتے ہیں۔ کچھ ان کی موقع پرست سیاست اور بار بار اتحاد بدلنے کی روایت کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی کرسی بچا لیں گے، جبکہ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق ان کی سیاسی اننگ اب اختتام کے قریب ہے۔ اس قیاس کی بنیاد پارٹی کے اندر بڑھتی بدانتظامی اور ان کے قریبی سمجھے جانے والے رہنماؤں سنجے جھا اور راجیو رنجن سنگھ عرف للن سنگھ کی سرگرمیوں کو بنایا جا رہا ہے۔ دونوں بی جے پی کے قریب مانے جاتے ہیں اور پارٹی میں اختلافات کا محور بنے ہوئے ہیں۔

افواہیں ہیں کہ جے ڈی یو انتخابات کے بعد ٹوٹ سکتی ہے اور ناراض دھڑا بی جے پی میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس اندیشے نے نتیش کے حامیوں کو بےچین کر دیا ہے کہ کہیں وہ سیاسی سودے بازی کی پوزیشن نہ کھو بیٹھیں۔ این ڈی اے میں سیٹوں کی تقسیم سے بھی تلخی کے آثار ہیں۔ چراغ پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کو وہ سیٹیں دی گئی ہیں جن پر جے ڈی یو کا بھی دعویٰ رہا ہے۔ اس کے جواب میں نتیش نے کئی ایسی سیٹوں پر اپنے امیدوار اتار دیے ہیں جہاں چراغ کے امیدوار میدان میں ہیں۔


چراغ پاسوان نے 2020 کا الیکشن اکیلے لڑا تھا، ایک ہی سیٹ جیت پائے مگر جے ڈی یو کو نقصان پہنچا کر بی جے پی کو فائدہ ضرور دلایا۔ اسی تجربے کی بنیاد پر یہ قیاس لگایا جا رہا ہے کہ اگر این ڈی اے جیت گیا تو نتیش کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ اسی خوف کے باعث نتیش کے وفادار چاہتے ہیں کہ انتخاب سے پہلے ہی انہیں وزیراعلیٰ کا چہرہ قرار دیا جائے، مگر اب تک ایسا نہیں ہوا۔ سوال یہی ہے کہ کیا ان کے پاس کوئی نیا پتا باقی ہے؟

یہ انتخاب صرف اقتدار کی کشمکش نہیں، بہار میں تبدیلی کی خواہش کا امتحان بھی ہے۔ آر جے ڈی کے رہنما تیجسوی یادو ہر خاندان کو ایک سرکاری نوکری دینے کے وعدے کے ساتھ میدان میں ہیں، تو نتیش خواتین کو راغب کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ 29 اگست کو ان کی حکومت نے خواتین کے لیے روزگار اسکیم کے تحت خواتین کے بینک کھاتوں میں 10 ہزار روپے جمع کرائے گئے۔

دوسری طرف، انڈیا بلاک کا منشور اگرچہ ابھی سامنے نہیں آیا تھا، مگر یہ اطلاعات ہیں کہ وہ بے زمین شہری و دیہی آبادی کو زمین دینے اور اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات (ای بی سی) کو نجی اداروں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دینے کی بات کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ریاست کی آبادی میں تقریباً 36 فیصد کی شراکت والے ایس بی سی طبقہ کے لیے ریاست کے نجی اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن جیسے اقدام کا اعلان بھی کیا جا سکتا ہے۔

لیکن ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا بہار واقعی تبدیلی کا خواہاں ہے؟ 2020 کے انتخابات میں صرف 12 ہزار ووٹوں کے معمولی فرق نے نتیجہ طے کیا تھا، اس لیے مانا جا رہا ہے کہ بہار کے عوام اس بار واقعی تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔


لیکن اصل سوال الیکشن کمیشن کے کردار پر ہے۔ کیا کمیشن اپنی مشکوک ایس آئی آر مہم کے ذریعے کسی سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے؟ مسودہ ووٹر لسٹ سے بے بنیاد شک کی بنیاد پر لاکھوں نام حذف کیے گئے، پھر حتمی فہرست میں مشکوک اندراجات جوڑ دیے گئے۔ رپورٹس کے مطابق تقریباً 76 لاکھ بالغ شہریوں کے نام فہرست سے غائب ہیں۔

حیرت انگیز طور پر نئی ووٹر لسٹ میں تمل، تلگو اور کنڑ زبانوں میں انٹریز، ہیش ٹیگ اور غیر واضح پتوں کا وجود پایا گیا۔ کئی مقامات پر ایک ہی پتے پر سیکڑوں ووٹر درج ہیں، حالانکہ کمیشن کے اپنے ضوابط کے مطابق ایسے معاملات میں فزیکل ویریفکیشن ضروری ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ الیکشن کمیشن نے یہ وضاحت نہیں کی کہ 2018 سے موجود ’ڈی ڈیپلی کیشن سافٹ ویئر‘ کو بہار کی ووٹر لسٹ کی جانچ کے لیے استعمال کیوں نہیں کیا گیا۔

یہ سب سوال اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بہار کا یہ انتخاب صرف سیاست نہیں بلکہ جمہوریت کے نظام پر عوامی اعتماد کا بھی امتحان ہے۔ کیا بہار سچ میں تبدیلی کے موڈ میں ہے، یا سب کچھ پرانے فارمولے کے تحت ہی چلے گا، یہی فیصلہ نومبر کے ووٹ کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔