بہار: جہاں نذرِ آتش ہوتی ہیں لاشیں، وہاں تعلیم کی شمع روشن کر رہے تین دوست

کہا جاتا ہے کہ ’زندہ ہو تو طاقت رکھو بازوؤں میں لہروں کے خلاف تیرنے کی، کیونکہ لہروں کے ساتھ بہنا تو لاشوں کا کام ہے‘، ایسا ہی کچھ مظفر پور میں تین دوست اپنے مضبوط حوصلے کے ساتھ کرتے نظر آ رہے ہیں۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

کہا جاتا ہے کہ ’زندہ ہو تو طاقت رکھو بازوؤں میں لہروں کے خلاف تیرنے کی، کیونکہ لہروں کے ساتھ بہنا تو لاشوں کا کام ہے‘، ایسا ہی کچھ بہار کے مظفر پور میں تین دوست اپنے مضبوط حوصلے کے ساتھ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ جس جگہ پر جانا لوگ پسند نہیں کرتے، وہاں پر نوجوان سُمت اپنے دو دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر غریب بچوں کے درمیان تعلیم کی شمع روشن کر رہے ہیں۔

بات مظفر پور شہر کے سکندر پور واقع مکتی دھام (شمشان گھاٹ) کی ہو رہی ہے۔ اس علاقے کے غریب فیملی کے بچے اکثر آنے والی لاشوں پر سے بتاشہ (ایک طرح کی مٹھائی)، پھل اور پیسے چنتے تھے۔ لیکن آج وہ ’دو ایکم دو، دو دونی چار‘ پڑھ رہے ہیں۔ یہ سب ممکن ہوا ہے ’جگیاسا سماج کلیان‘ کے بانی سُمت کی بدولت۔


سُمت خبر رساں ادارہ آئی اے این ایس کو بتاتے ہیں کہ ’’سال 2017 میں ایک جاننے والے کی موت ہو گئی تھی۔ لاش کی آخری رسومات کو لے کر وہ بھی مکتی دھام پہنچے تھے۔ اسی وقت دیکھا کہ کس طرح بچے لاش پر سے بتاشہ اور پھل چن رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر بہت برا لگا اور میں نے ان بچوں کے لیے کچھ کرنے کی ٹھان لی۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ ’’پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کی عمر میں یہ بچے اپنے پیٹ کے لیے مارا ماری کر رہے تھے۔ یہیں سے میرے دل میں خواہش جاگی کہ کیوں نہ انھیں خواندہ بنایا جائے۔‘‘

سمت کہتے ہیں کہ انھوں نے منصوبہ تو بنا لیا، لیکن ان غریب بچوں کے والدین کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا کہ وہ ان کی پڑھائی پر خرچ کر سکیں اور بچوں کو پڑھنے کے لیے اسکول بھیجتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے اس مسئلہ کے حل کے لیے خود ان بچوں کو خواندہ کرنے کا من بنایا اور مکتی دھام واقع مہاکال مندر کے پجاری سے رابطہ کیا۔ پجاری سوکھی لال منڈل سے جب اس ضمن میں بات چیت کی گئی تب انھوں نے خود ہی آس پاس کے لوگوں کو بلایا اور انھیں بچوں کی پڑھائی کے تعلق سے بیدار کیا۔ اس کے بعد سرپرست بھی تیار ہو گئے۔‘‘


سمت بتاتے ہیں کہ ایک چبوترے پر ہفتہ میں تین دن اسکول لگنے لگی۔ شروع میں ایک ایک کر کے 46 بچے جمع ہو گئے اور انھیں مفت تعلیم ملنے لگی۔ اس کے بعد میں نے اپنے دوستوں ابھیراج کمار اور سمن سوربھ کو بھی پڑھانے کے لیے تیار کر لیا۔ آج بچوں کی تعداد بڑھ کر 81 ہو گئی ہے۔ سمت کا کہنا ہے کہ ’’کورونا بحران میں اسکول تو نہیں لگ رہا ہے، لیکن ہم تینوں دوست روزانہ کسی نہ کسی طالب علم کے گھروں میں پہنچتے ہیں اور ان سے بات چیت کرتے ہیں۔ کچھ ٹاسک بھی دے دیتے ہیں۔ پھر اس کی جانچ بھی کرتے ہیں۔‘‘ اس کام میں مظفر پور میں لوگوں کا ساتھ دیکھ کر پرجوش سمت مغربی چمپارن میں بھی غریب بستی میں غریب بچوں کے لیے تین اسکول کھول رکھے ہیں۔ سمت کا کہنا ہے کہ ’’اس اسکول میں بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اسکول کی شروعات قومی گیت گا کر کیا جاتا ہے۔ بچوں میں اس سے حب الوطنی کا جذبہ جاگتا ہے۔ یہاں بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تہذیب کی بھی سیکھ دی جاتی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔