بہار اسمبلی انتخاب: دوسرے مرحلہ کی پولنگ آج، مہاگٹھ بندھن سے مقابلہ این ڈی اے کے لیے مشکل طلب

سیاسی و سماجی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیمانچل اور شاہ آباد-مگدھ میں این ڈی اے کی حالت کمزور مانی جاتی رہی ہے، جبکہ مہاگٹھ بندھن اس خطہ میں اپنی گرفت مضبوط کرتی دکھائی دے رہی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر ’ایکس‘&nbsp;<a href="https://x.com/ECISVEEP">@ECISVEEP</a></p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

بہار اسمبلی انتخاب کے دوسرے مرحلہ کی ووٹنگ 11 ستمبر یعنی آج ہونی ہے۔ دوسرے مرحلے میں بہار کی 122 نشستوں پر جیت حاصل کرنے کے لیے این ڈی اے اور مہاگٹھ بندھن کے ساتھ دیگر پارٹیوں نے بھی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ دوسرا مرحلہ بنیادی طور پر بہار کے 5 علاقوں (سیمانچل، شاہ آباد-مگدھ، اَنگ پردیش، چمپارن اور متھلا خطے کا مدھوبنی) پر مشتمل ہے، جہاں سیکورٹی کے سخت انتظامات کر لیے گئے ہیں۔ دوسرے مرحلہ میں مہاگٹھ بندھن سے مقابلہ این ڈی اے کے لیے مشکل طلب دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ جن سیٹوں پر ووٹ آج ڈالے جائیں گے، وہاں گزشتہ مرتبہ این ڈی اے کی کارکردگی بہت ہی زیادہ اچھی دیکھنے کو ملی تھی۔ اس مرتبہ مہاگٹھ بندھن امیدواروں کے حق میں ووٹرس کا ایک بڑا طبقہ متحد دکھائی دے رہا ہے۔

بہار اسمبلی انتخاب: دوسرے مرحلہ کی پولنگ آج، مہاگٹھ بندھن سے مقابلہ این ڈی اے کے لیے مشکل طلب

یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ بہار کے سیمانچل اور شاہ آباد-مگدھ میں جس پارٹی کی کارکردگی بہتر ہوگی، اس کے امکانات حکومت سازی میں بھی بہتر دیکھنے کو ملیں گے۔ ان علاقوں میں این ڈی اے اور تیجسوی یادو (مہاگٹھ بندھن) دونوں کے لیے ایک بڑی آزمائش دیکھنے کو ملے گی۔ سیاسی مساوات اور سماجی اتحاد کے لحاظ سے سیمانچل اور شاہ آباد-مگدھ میں این ڈی اے کی پوزیشن کمزور مانی جا رہی ہے، جبکہ مہاگٹھ بندھن اپنی گرفت مضبوط کرتی نظر آ رہی ہے۔ اویسی اس خطہ میں اس مرتبہ اتنا اثر انداز دکھائی نہیں دے رہے ہیں، جتنا کہ 2020 میں دکھائی دیے تھے۔ اس بار پرشانت کشور کی پارٹی جن سوراج ’کچھ بڑا کارنامہ‘ دکھانے کا دعویٰ کر رہی ہے، لیکن زمین پر ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ حالانکہ پچھلے اسمبلی انتخاب میں سیمانچل میں این ڈی اے نے اچھا مظاہرہ کیا تھا، لیکن اس بار حالات بہتر نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ جن سوراج کو بھی بتایا جا رہا ہے۔ یعنی جَن سوراج امیدوار این ڈی اے کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اور اس کا فائدہ مہاگٹھ بندھن امیدواروں کو ملے گا۔


بتایا جاتا ہے کہ 2020 کے اسمبلی انتخاب میں تیجسوی یادو اور مہاگٹھ بندھن نے جن 110 نشستوں پر جیت درج کی تھی، ان میں سے 46 نشستیں مگدھ اور شاہ آباد کی تھیں، جبکہ این ڈی اے کے حصے میں صرف 23 نشستیں آئی تھیں۔ اس بار ان علاقوں میں ماحول دلچسپ بتایا جا رہا ہے۔ پرشانت کشور کی جَن سوراج کے میدان میں آنے کے بعد حالات کافی بدل گئے ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ اویسی نے جہاں مہاگٹھ بندھن کے ووٹوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی ہے، وہیں جَن سوراج نے این ڈی اے کے ووٹ اپنے پالے میں کیے ہیں۔ انہی قیاس آرائیوں نے این ڈی اے اور تیجسوی یادو دونوں کو پریشانی میں ڈال رکھا ہے۔ حالانکہ کچھ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلم طبقہ اس بار متحد ہو کر مہاگٹھ بندھن کے حق میں ووٹ ڈالنے کا ارادہ کر چکا ہے۔ یعنی اویسی فیکٹر کام نہیں کرے گا۔ ایسا ہوا تو پھر این ڈی اے کی پریشانیاں بہت بڑھ جائیں گی۔

دراصل شاہ آباد علاقہ کے 4 لوک سبھا حلقوں میں 25 اسمبلی حلقے آتے ہیں۔ 2020 میں ان میں سے 20 پر تیجسوی (مہاگٹھ بندھن) اور 5 پر این ڈی اے قابض تھا۔ اسی طرح مگدھ علاقہ کے 7 لوک سبھا حلقوں میں 42 اسمبلی نشستیں ہیں۔ شاہ آباد اور مگدھ خطے کے اورنگ آباد، جہان آباد، ارول، آرہ، بکسر، سہسرام اور گیا جیسے اضلاع اس علاقے میں شامل ہیں۔ یہ علاقہ یادو، کرمی، راجپوت اور دلت ووٹروں کے توازن والا ہے، جبکہ جہان آباد–ارول کی کچھ نشستوں پر بھومیہار اثر رکھتے ہیں۔


مجموعی طور پر سیمانچل میں مذہبی صف بندی اور شاہ آباد-مگدھ میں ذات پر مبنی حالات این ڈی اے کے لیے چیلنج بن گئے ہیں۔ اگر اپوزیشن کی یکجہتی برقرار رہی اور ذاتوں کی یکسوئی قائم رہی، تو ان دونوں خطوں میں این ڈی اے کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ سیمانچل علاقے میں 24 اسمبلی نشستیں شامل ہیں، جن میں کٹیہار، کشن گنج، ارریہ اور پورنیہ جیسے اضلاع آتے ہیں۔ یہ علاقہ مسلم اکثریتی اور روایتی طور پر آر جے ڈی اور کانگریس کے مضبوط ووٹ بینک والا رہا ہے۔

2020 کے اسمبلی انتخاب میں سیمانچل کی 24 نشستوں میں سے این ڈی اے کو 12، اے آئی ایم آئی ایم کو 5، جبکہ مہاگٹھ بندھن کو صرف 6 نشستیں ملی تھیں۔ پچھلے الیکشن میں اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم نے ارریہ اور کشن گنج میں مسلم نوجوانوں کے درمیان گہری رسائی بنائی تھی۔ اس بار بھی اویسی کی پارٹی سیمانچل میں جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ اتری ہے، لیکن آر جے ڈی نے بھی اپنا پورا زور لگا دیا ہے۔ اگر مسلم طبقہ نے یکجہتی کے ساتھ مہاگٹھ بندھن کا ساتھ دیا، تو پھر اویسی بے معنی ثابت ہوں گے۔


2020 کے اسمبلی انتخاب میں شاہ آباد–مگدھ علاقہ کے برعکس چمپارن اور متھلانچل بہار میں اپوزیشن اتحاد کی کارکردگی بہت خراب رہی تھی۔ انہی دونوں علاقوں نے 2020 میں این ڈی اے حکومت کی تشکیل کو یقینی بنایا تھا۔ 11 ستمبر کی ووٹنگ میں متھلانچل کے چمپارن اور مدھوبنی کی 31 نشستیں ریاست میں اگلی حکومت بنانے کے لیے کسی بھی اتحاد کے لیے نہایت اہم ہوں گی۔ اگر اس میں دربھنگہ کی 10 نشستیں شامل کر لی جائیں تو دونوں علاقوں میں 41 نشستیں بنتی ہیں، اگرچہ دربھنگہ میں ووٹنگ پہلے مرحلے میں ہو چکی ہے۔ اس فہرست میں متھلانچل کے دربھنگہ اور مدھوبنی کی 20 نشستیں اور مشرقی و مغربی چمپارن کی 21 نشستیں شامل ہیں۔

چمپارن اور متھلانچل کی 41 نشستوں میں سے این ڈی اے نے 34 نشستیں جیتی تھیں، جبکہ مہاگٹھ بندھن کو صرف 7 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس بار بھی بہار میں مقابلہ کانٹے کا مانا جا رہا ہے۔ 2020 کے پچھلے اسمبلی انتخاب میں دونوں اتحادوں کے درمیان نشستوں کا فرق 15 تھا، جس میں این ڈی اے کو 125 اور مہاگٹھ بندھن کو 110 نشستیں ملی تھیں۔ ووٹ شیئر کا فرق صرف 0.03 فیصد تھا، جس میں این ڈی اے کو 37.26 فیصد اور ایم جی بی کو 37.23 فیصد ووٹ ملے تھے۔ یعنی ووٹوں کا تھوڑا سا بھی الٹ پھیر این ڈی اے کو اقتدار سے بے دخل اور تیجسوی کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر فائز کر سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔