بھیما-کوریگاؤں معاملہ: پانچوں حقوق انسانی کارکنان کی نظر بندی 19 ستمبر تک بڑھی

سپریم کورٹ نے پانچوں حقوق انسانی کارکنان کی نظر بندی میں توسیع کرتے ہوئے اسے 19 ستمبر تک بڑھا دیا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ 19 ستمبر یعنی بدھ کے روز عدالت عظمیٰ اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کی فائل تصویر 
سپریم کورٹ کی فائل تصویر
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ نے بھیما کوریگاؤں کیس میں حراست میں لیے گئے پانچوں حقوق انسانی کارکنان کی نظر بندی 19 ستمبر تک بڑھا دی ہے۔ پیر کے روز مرکزی حکومت نے ملزمین کے خلاف کچھ دیگر ثبوت پیش کرنے کے لیے عدالت سے مہلت مانگی جس پر عدالت نے سماعت کے لیے 19 ستمبر کی تاریخ طے کرتے ہوئے کہا کہ کیس سے جڑے پونے پولس کے ریکارڈ اور دیگر ثبوتوں کو دیکھ کر ہی اس معاملے میں کوئی فیصلہ کریں گے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی بنچ نے کہا کہ اس معاملہ میں حق آزادی کی حفاظت کی جائے گی۔ بنچ نے کہا کہ اس سلسلے میں پونے پولس کے دستاویزوں کی جانچ کے بعد اگر عدالت کی مداخلت کی ضرورت ہوگی تو دیکھیں گے۔ عدالت نے یہ بھی اشارہ دیا کہ اگر پولس کے دستاویزات میں کچھ نہیں ملا تو ایف آئی آر کو رَد کر سکتے ہیں۔

اس سے قبل سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے اس طرح کی عرضیوں پر سماعت اور سپریم کورٹ کی مداخلت کی مخالفت کی۔ حکومت کی طرف سے پیش تشار مہتا نے کہا کہ ملزمین کی گرفتاری صرف بھیما کوریگاؤں کے معاملے میں نہیں ہوئی ہے، اندیشہ ہے کہ یہ ملک میں امن و امان کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش میں بھی شامل ہیں۔ تشار مہتا نے معاملے کے عرضی دہندگان پر بھی سوال اٹھائے اور کہا کہ ان کا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور انھیں اس کے بارے میں کوئی جانکاری بھی نہین ہے۔ انھوں نے اس تعلق سے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کیے جانے پر بھی سوال اٹھائے۔ لیکن اس سوال پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس معاملے کی سماعت آزادی کے حق کو مدنظر رکھتے ہوئے کر رہی ہے۔ دوسری طرف ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل منندر سنگھ نے بھی عرضی دہندگان کے سیدھے سپریم کورٹ آنے پر سوال اٹھائے اور کہا کہ وہ ذیلی عدالت یا ہائی کورٹ بھی جا سکتے تھے۔

عرضی دہندگان کی پیروی کرتے ہوئے سینئر وکیل ابھشیک منو سنگھوی نے معاملے کی جانچ ایس آئی ٹی یا پھر سپریم کورٹ کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں پہلے یہ کہا گیا کہ وزیر اعظم کے قتل کی سازش کے سلسلے میں انھیں گرفتار کیا گیا ہے، لیکن اگر ایسا تھا تو اس کی جانچ میں سی بی آئی یا پھر این آئی اے کو کیوں نہیں شامل کیا گیا۔

قابل ذکر ہے کہ ملک بھر میں کئی حقوق انسانی کارکنان کے گھروں پر چھاپہ ماری کے بعد 5 کارکنان کی گرفتاری کے خلاف مورخ رومیلا تھاپر سمیت دیگر پانچ لوگوں کی عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے۔ ملک کی کئی مشہور و معروف ہستیوں نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر وکیل سدھا بھاردواج، شاعر وراورا راؤ، وکیل ارون فریرا، حقوق انسانی کارکن گوتم نولکھا اور ویرنن گونزالویس کی 28 اگست کو ہوئی گرفتاری کو چیلنج پیش کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔