نیتا جی سبھاش چندر بوس بھی ’شہریت قانون‘ کی مخالفت کرتے: بنگال بی جے پی نائب صدر

بنگال بی جے پی کے نائب صدر چندر کمار بوس نے کہا کہ ’’میری ذمہ داری ہے کہ ہندوستان کے لیے جو اچھا ہے وہ کیا جائے۔اگر پارٹی میری باتوں سے متفق نہیں تو مجھے اپنے اگلے اقدامات پر غور کرنا چاہیے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

کولکاتا: اس استدلال کے ساتھ کہ اگر نیتاجی سبھاش چندر بوس زندہ ہوتے تو وہ بھی طلباء کے ساتھ مل کر ”شہریت ترمیمی ایکٹ“اور این آر سی کے حلاف تحریک میں حصہ لیتے۔نیتاجی کے پڑپوتے چندر کمار بوس جو بنگال بی جے پی کے نائب صدر ہیں نے ایک بار پھر پارٹی کے موقف کے بر خلاف این آر سی اور شہریت ترمیمی بل کے خلاف اپنی بات کھل کررکھی ہے۔

خیال رہے کہ 23 دسمبر کو جب بی جے پی کے کارگزار صدر جے پی نڈا کولکاتا میں شہریت ترمیمی ایکٹ کی حمایت میں ریلی کررہے تھے ، اس وقت بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ چندر کمار بوس شہریت ترمیمی ایکٹ میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیے جانے پر تنقید کررہے تھے۔ایک بار پھر انہوں نے ایک انٹریو میں کہا ہے کہ”نیتاجی سبھاش چندر بوس نوجوانوں کے لیڈر تھے اور وہ ہمیشہ ہندوستانی نوجوانوں کی حمایت کی ہے۔جب و ہ پریڈنسی کالج میں تھے اس وقت بھی اور جب وہ کیمبرج یونیورسٹی میں تھے تو اس وقت وہ اسٹوڈننس لیڈر تھے اور انہوں نے نوجوانوں کو ہندوستان کی تحریک آزادی میں حصہ لینے کیلئے حوصلہ دیا تھا اس لیے فطری بات ہے کہ اگر آج نیتاجی زندہ ہوتے تو وہ ملک کے نوجوانوں کے ساتھ ہوتے۔


چندر کمار بوس سے جب یہ سوال کیا گیا کہ وہ این آر سی اور سی اے اے کے خلاف اپنے موقف سے پارٹی اعلیٰ قیادت بالخصوص وزیرا عظم نریندر مودی اور امت شاہ کو بتایا تھا کہ جب کہ یہ دونوں بی جے پی کے انتخابی منشور کا حصہ تھا۔ بوس نے کہا کہ میری ذمہ داری ہے کہ ہندوستان کے لئے جو اچھا ہے اس سے مطلع کیا جائے۔اگر پارٹی میری باتوں پر اتفاق نہیں کرتی ہے تو مجھے اپنے اگلے اقدامات پر غور کرنا چاہیے۔میں قبل از وقت کچھ کہنے کے حق میں نہیں ہوں جب میں پل پر پہنچوں گا ضرور اس کو عبور کروں گا۔

ایک سوال کے جواب میں چندر کمار بوس نے کہا کہ اگر نیتاجی 1945کے بعد ہندوستان واپس آتے تو ہندوستان تقسیم ہی نہیں ہوتا اور ہم ایک غیر منقسم ہندوستان کے شہری ہوتے۔اگر نیتاجی زندہ ہوتے تو اس طرح کے مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے۔مگر وہ ہندوستان واپس ہی نہیں آسکے اور اس کی قیمت ملک کو چکانی پڑی۔ بوس نے کہا کہ اس معاملے میں بات کرنے کے لئے میں نے وزیرا عظم اور وزیر داخلہ سے جنوری کے پہلے ہفتے میں وقت مانگا ہے اور مجھے امید ہے کہ مجھے ملاقات کا وقت ملے گا اور میں پھر ان کے سامنے شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی سے متعلق اپنی بات رکھوں گا۔


بوس نے کہا کہ میں حکومت اور پارٹی کے خلاف نہیں ہوں بلکہ میں ہندوستان کے عوام کے ساتھ ہوں اور عوام کی آواز کو ان کے سامنے بلند کروں گا۔انہوں نے کہا کہ میں بنیادی طور پر شہریت ترمیمی ایکٹ کے حق میں ہوں،مگر اس قانون کو مذہب کی بنیاد پر پاس نہیں ہونا چاہیے۔مذہبی تفریق کیے بغیر ان افراد کی شناخت ہونی چاہیے جو غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل ہوئے ہیں۔میرے خیال سے یہ عمل مذہبی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے اور کسی کو بھی شہریت مذہبی بنیاد پر نہیں دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو ہر مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔بوس نے کہا کہ میری آئیڈولوجی سوامی ویکانند اور نیتاجی سباش چندر بوس کے خیالات پر مبنی ہے اور اسی کو بھارتیتا بولتے ہیں۔

چند ر کمار بوس سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اگر شہریت ترمیمی ایکٹ نافذہوتا ہے تو کیا عوام کو اس کی حمایت کرنی چاہیے؟بوس نے کہا کہ ہندوستان میں ڈکٹیٹر شب نہیں ہے،ہندوستان میں جمہوریت ہے۔اگر عوام کسی قانون کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے تو کیا حکومت کےلئے اس کو نافذ کرنا ممکن ہے۔کیا ریاستی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر نافذ کیا جاسکتا ہے۔ہر ایک ریاست میں صدر راج نافذ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ریاست اور مرکز کے درمیان تعاون ضروری ہے۔اس لیے این آر سی اور شہریت ترمیمی ایکٹ کیلئے ریاستی حکومتوں کو راضی کرنا پڑے گا۔این ڈی اے میں شامل نتیش کمار نے بھی این آر سی نافذکرنے سے انکارکرچکے ہیں۔اکالی دل بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ہرایک ریاستی حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آئی ہے۔اس لیے آپ شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کرنے پر ہر ایک ریاستی حکومت کو برخواست نہیں کرسکتے ہیں۔


ایمرجنسی کے بعد اندراگاندھی کو اکثریت حاصل ہونے کے بعد قدم کو واپس لینا پڑا تھا۔ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر ایک کے اپنے حقوق ہیں اور اس کااحترام کرنا پڑے گا۔تاہم چندر کمار بوس نے ہندوستان میں دوبارہ ایمرجنسی کے نفاذ کے امکانات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ نریندری مودی عوامی لیڈر ہیں وہ اندرا گاندھی والی غلطی کو نہیں دہرائیں گے اورمودی کسی بھی صورت میں عوام کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرسکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔