یوگی حکومت میں مظلوموں کی مدد کرنا بھی گناہ، مددگاروں پر پولس کا قہر

اتر پردیش کی پولس اقلیتوں پر زیادتی کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتی۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیتی طبقہ کا پولس سے بھروسہ لگاتار اٹھتا جا رہا ہے۔

یو پی پولس
یو پی پولس
user

آس محمد کیف

اتر پردیش پولس کے کچھ اعلیٰ افسران لوگوں کا بھروسہ جیتنے کا دعویٰ بھلے ہی کرتے ہوں، لیکن زمینی حقیقت اس سے بہت الگ ہے۔ ریاست کی پولس اقلیتوں پر زیادتی کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیتی طبقہ کا پولس پر سے لگاتار بھروسہ اٹھتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں میرٹھ کے لساڑی گیٹ تھانہ علاقہ سے ایک ایسا حیران کرنے والا معاملہ سامنے آیا ہے جس نے ایک بار پھر ظاہر کر دیا ہے کہ پولس اقلیتی طبقہ کے خلاف مظالم ڈھانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتی۔

میرٹھ کا یہ علاقہ پہلے سے ہی پولس کی یکطرفہ کارروائی کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ اسی درمیان جمعرات کو ہوئے ایک واقعہ نے پھر یوگی حکومت اور اس کی پولس کا اصلی چہرہ سامنے لا دیا ہے۔ یہاں دہلی فساد متاثرین کی مدد کے لیے راحتی اشیا جمع کرنے کے مقصد سے ایک کیمپ لگایا گیا تھا، جس کی خبر لگتے ہی مقامی پولس نے موقع پر پہنچ کر اسے جبراً بند کروا دیا۔


دراصل میرٹھ کے لساڑی گیٹ تھانہ علاقہ کے کچھ مقامی لوگوں نے دہلی فساد متاثرین کی مدد کے لیے لوگوں سے آٹا، چاول، دال جیسی کھانے کی چیزیں اور کپڑے عطیہ کرنے کی اپیل کی تھی اور اس کے لیے ایک کیمپ لگایا گیا تھا جہاں مقامی لوگ اس میں مدد کر رہے تھے۔ لیکن جمعرات کو جیسے ہی میرٹھ پولس کو اس کی جانکاری ہوئی، اس نے موقع پر پہنچ کر اس راحتی کام کو رکوا دیا۔

یوگی حکومت میں مظلوموں کی مدد کرنا بھی گناہ، مددگاروں پر پولس کا قہر

مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ اس دوران پولس نے بے رحمی سے لاٹھیاں چلا کر لوگوں کو وہاں سے بھگا دیا۔ اتنا ہی نہیں، انھیں جیل بھیجنے کی دھمکی بھی دی۔ اس سے ناراض مقامی لوگوں نے اگلے دن میرٹھ رینج کے پولس آئی جی سے مل کر اس کی شکایت بھی کی، لیکن اس داروغہ کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی جس نے اس واقعہ کو انجام دیا تھا۔


میرٹھ میں راحت کیمپ کا انعقاد کرنے والے سابق کونسلر حاجی عرفان علی نے پورے واقعہ کے تعلق سے بتایا کہ ’’کیا اب کسی متاثرہ کی مدد کرنا گناہ ہے۔ ہم لوگ دہلی فساد کی آگ میں جھلسنے والوں کی مدد کرنے کے لیے متحد ہو رہے تھے۔ ہم نے لوگوں سے آٹا، چاول، دال اور کپڑے خیرات میں دینے کی گزارش کی۔ لوگ ہماری اپیل پر مدد کر رہے تھے، لیکن پولس نے ہمارے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔‘‘

حاجی عرفان نے واقعہ کے بارے میں بتایا کہ کیمپ چل ہی رہا تھا کہ اچانک وہاں اسلام آباد کے چوکی انچارج بھونیشور پہنچے اور آتے ہی انھوں نے نہ صرف مدد کے لیے سامنے آنے والوں کو گالیاں دینی شروع کر دی بلکہ متاثرین کے لیے راحتی اشیاء جمع کرنے کے لیے کیمپ لگانے پر بھی سوال کھڑے کیے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے کیمپ سے فساد بھڑک سکتا ہے۔ انھوں نے دھمکی بھی دی کہ ’’اگر کسی کی مدد کے لیے کوئی کیمپ لگایا تو سب کو اندر کر دوں گا۔ کسی بھی مقدمے میں پھنسا کر جیل بھیج دوں گا۔‘‘ اس کے بعد چوکی انچارج نے کیمپ پر راحتی اشیاء عطیہ کرنے کی اپیل کرنے والا بینر بھی پھاڑ ڈالا۔ حالانکہ حاجی عرفان کے مطابق آئی جی پروین کمار نے انھیں کسی بھی طرح کی زیادتی نہیں ہونے دینے کی بات کہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’پولس کسی کو بھی فرضی کیس سے پریشان نہیں کرے گی اور وہ اس کی جانچ کرائیں گے اور کسی کے ساتھ بھی ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔‘‘


اتر پردیش میں ان دنوں کئی مقامات پر ایک فریق کے خلاف پولس کی کارروائی میں تیزی دکھائی پڑ رہی ہے۔ یہ کافی فکر انگیز ہے۔ لیکن اس سے زیادہ فکر انگیز ان واقعات کو لے کر مقامی اخبارات کی رپورٹنگ ہے جو ایک خاص طبقہ کے خلاف زہر افشانی کے مقصد سے جان بوجھ کر شبیہ بگاڑنے کی کوشش کے تحت کی جاتی ہے۔ کئی طرح کی غلط خبریں شائع ہو رہی ہیں۔ لوگوں میں مقامی اخبارات کی رپورٹنگ کو لے کر کافی ناراضگی ہے اور انھوں نے کچھ اخباروں کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کر دیا ہے۔

یوگی حکومت میں مظلوموں کی مدد کرنا بھی گناہ، مددگاروں پر پولس کا قہر

دراصل میرٹھ کے تین بڑے اخبارات نے دہلی فسا د متاثرین کے لیے میرٹھ کے لساڑی گیٹ تھانہ علاقہ میں سابق کونسلر کے ذریعہ کیمپ لگائے جانے کی خبر کو بے حد غلط طریقے سے پیش کیا ہے۔ ’دینک جگرن‘ نے لکھا ’’فساد متاثرین کے لیے لے رہے تھے چندہ، پولس سے کی بدسلوکی‘‘۔ روزنامہ ’ہندوستان‘ نے لکھا کہ ’’دہلی فساد کے متاثرین کے نام پر جمع کیا چندہ‘‘۔ روزنامہ ’امر اجالا‘ نے خبر کی سرخی میں ہی لکھ دیا کہ ’’دہلی تشدد کے ملزمین کے لیے لساڑی گیٹ میں لگا کیمپ‘‘۔ یہ سرخی براہ راست الزام عائد کرتی ہے کہ فسادات کے ملزم وہی ہیں جن کے گھر جلا دیے گئے اور اب وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر کیمپ میں رہ رہے ہیں۔

یوگی حکومت میں مظلوموں کی مدد کرنا بھی گناہ، مددگاروں پر پولس کا قہر

مقامی باشندہ ظفر محمد راحت کے مطابق پولس سے غیر جانبدارانہ طریقے سے ذمہ داری انجام دیے جانے کی امید کی جاتی ہے۔ لیکن اتر پردیش پولس، خصوصاً میرٹھ پولس کی تازہ کارروائی سے وہ ایک طبقہ کے تئیں زیادتی کرتی ہوئی واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ اس معاملے میں میڈیا سے سچ دکھانے کی امید کی جاتی ہے، لیکن ٹی وی میڈیا کے ساتھ ہی مقامی اخبارات نے بھی زہر پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم لوگ ٹی وی اور اخبار دونوں کا بائیکاٹ کریں گے۔ اخبار پوری طرح جھوٹ لکھ رہے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */