نمیشا پریا کی پھانسی کیسے ٹلی؟ پردے کے پیچھے کی کہانی اور آگے کا راستہ

یمن میں بند کیرالہ کی نرس نمیشا پریا کی پھانسی عین وقت پر ٹال دی گئی اور خون بہا کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ ہندوستانی کوششوں اور عالم دین ابوبکر مسلیار کی مداخلت نے اہم کردار ادا کیا

<div class="paragraphs"><p>نمیشا پریا / سوشل میڈیا</p></div>

نمیشا پریا / سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

یمن کی جیل میں سزائے موت کا سامنا کر رہی کیرالہ کی نرس نمیشا پریا کی پھانسی عین وقت پر ٹال دی گئی۔ یہ فیصلہ ایک طرف جہاں خون بہا (بلڈ منی) سے متعلق جاری مذاکرات کی وجہ سے سامنے آیا، وہیں سفارتی اہلکاروں اور یمن میں موجود مقامی رابطوں نے پردے کے پیچھے غیر معمولی کوششیں کیں۔ ان میں سب سے نمایاں کردار سماجی کارکن سیموئل جیروم باسکرن اور ہندوستانی عالم دین ابوبکر احمد مسلیار کا رہا، جنہوں نے متاثرہ خاندان سے براہ راست بات چیت میں پہل کی۔

نمیشا پریا کو یمن کی عدالت نے 2018 میں قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی تھی، جسے 2023 میں یمن کی سپریم جوڈیشل کونسل نے برقرار رکھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے یمنی بزنس پارٹنر طلال عبدو مہدی کو نشہ آور دوا دے کر پاسپورٹ واپس لینے کی کوشش کی، جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔

گزشتہ ہفتے یمن کے صدر رشاد العلیمی نے سزا پر عمل درآمد کی منظوری دی، جس کے بعد 16 جولائی کو پھانسی کا دن طے کیا گیا لیکن پھانسی سے محض ایک روز قبل، 15 جولائی کی شام جیل حکام کو یمنی اٹارنی جنرل کی ہدایت ملی کہ نمیشا کی سزائے موت کو فی الحال مؤخر کر دیا جائے۔


اس فیصلے کے پس منظر میں کئی اہم ملاقاتیں اور اقدامات شامل تھے۔ انڈین ایکسپریس میں شائع رپورٹ کے مطابق، سماجی کارکن اور ایوی ایشن کنسلٹنٹ سیموئل جیروم، جو 2015 میں یمن سے ہندوستانیوں کے انخلا میں بھی اہم کردار ادا کر چکے ہیں، اس بار بھی فعال نظر آئے۔ انہوں نے جیل حکام، پبلک پراسیکیوٹر اور عدالتی اہلکاروں سے ملاقات کی اور نمیشا کی والدہ پریما کماری کی طرف سے رحم کی اپیل صدر تک پہنچائی۔

ان ہی کی کوششوں سے یمن کے الوصاب علاقے کے حکمران عبد الملک النہایا نے صدر سے ملاقات کی اور اس کے ایک دن بعد صدر نے پھانسی کو مؤخر کرنے کی منظوری دی۔ اس فیصلے کو فوری طور پر عام نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ جیل کے باہر بڑی تعداد میں مقامی لوگ پھانسی دیکھنے کے لیے جمع ہو رہے تھے اور خدشہ تھا کہ اطلاع ملنے پر نظم و نسق کا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔

دوسری جانب، ہندوستان کے سنی عالم دین ابوبکر احمد مسلیار، جنہیں کانتھاپورم شیخ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے اس معاملے میں اہم مداخلت کی۔ انہوں نے یمنی صوفی عالم اور شورٰی کونسل کے رکن شیخ حبیب عمر کے توسط سے مقتول کے اہل خانہ سے رابطہ قائم کیا۔ ذرائع کے مطابق پہلے مرحلے کی بات چیت مثبت رہی اور اسی کے بعد یمنی حکام نے پھانسی ملتوی کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔

تاہم اب بھی سب سے اہم مرحلہ باقی ہے اور ہے مقتول طلال عبدو مہدی کے اہل خانہ کی طرف سے معافی۔ شریعت کے مطابق، خون بہا قبول ہونے کے بعد ہی سزائے موت کو قانونی طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ اب تمام تر امیدیں اس بات پر مرکوز ہیں کہ متاثرہ خاندان راضی ہو جائے گا۔


رپورٹ میں سرکاری ذرائع کے حوالہ سے اطلاع دی گئی کہ ہندوستانی وزارت خارجہ کے مطابق، حکومت نے حالیہ دنوں میں خاصی سنجیدگی کے ساتھ وقت حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ دونوں فریقین آپس میں کسی معاہدے پر پہنچ سکیں۔ ہندوستانی مشن یمن میں جیل حکام اور استغاثہ سے مسلسل رابطے میں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟

نمیشا کی جان بچانے کا فیصلہ مکمل طور پر مقتول کے خاندان کے ہاتھ میں ہے۔ مذاکرات کا دوسرا دور جلد متوقع ہے۔ اگر خاندان خون بہا قبول کر لیتا ہے تو نمیشا کو قانونی طور پر معافی مل سکتی ہے۔ اگر نہیں، تو سزائے موت کا خطرہ دوبارہ منڈلانے لگے گا۔ فی الحال، پھانسی ٹلنے کو ایک انسانی جیت سمجھا جا رہا ہے لیکن اصل کامیابی اب بھی چند فیصلہ کن دنوں اور گفتگو کے نتائج پر منحصر ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔