بیتے دنوں کی بات: جو دیکھا ہے ان کا تو اب تصور بھی نہیں کیا جا سکتا

جب ہندوستان میں امراء کے گھر سے اس ٹیلی ویژن نے مڈل کلاس گھرانوں میں قدم رکھا تو ایک انقلاب آ گیا اور اس انقلاب کو 1950 سے 1970 کے درمیان پیدا ہونے والوں نے اپنے آنکھو سے خوب دیکھا ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

سید خرم رضا

کسی اونچی جگہ پر آگ کے ذریعہ، کسی بلند اواز والے شخص کے ذریعہ، گھڑ سوار کے ذریعہ پیغام، ٹیلی گرام کے ذریعہ پیغام، فون پار بات چیت، آواز کی ترسیل، ٹیلی ویژن کے ذریعہ آواز کے ساتھ تصویر یعنی انسان اپنے پیغامات پہنچانے کے لئے کوئی نہ کوئی جدید طریقہ ایجاد کرتا رہا ہے۔ اب تو یہ اتنا عام اور تیز ہو گیا ہے کہ منہ سے نکلنے بھر کی دیر ہے کہ پوری  دنیا اس کو سن لیتی  ہے اور وہ اس کی ملکیت ہو جاتی ہے۔ اور وہ دن دور نہیں جب انسان صرف سوچے گا اور لوگوں کو اس کا پتہ لگ جائے گا۔

موبائل فونز، ایل ای ڈی ٹیلی ویژن، ٹیبلیٹ، لیپ ٹاپ وغیرہ ایسی ایجادات ہیں جس نے انسان کے سامنے پوری دنیا کو رکھ دیا ہے۔ لیکن جب ابتداء میں اس  سمت میں سائنسدانوں نے کام شروع کیا ہوگا اس وقت سب انہیں بے وقوف سمجھتے ہوں گے اور کسی کے ذہن میں نہیں آیا ہوگا کہ ایک دن پوری دنیا انسان کے سامنے رکھی ہوئی ہوگی اور وہ اس کی مرضی ہو گی کہ اس کو سننا چاہتا ہے یا دیکھنا۔


1927 میں پہلی مرتبہ بلیک اینڈ وہائٹ یعنی کالا سفید ٹیلی ویژن ایجاد ہوا تھا اور جیسے جیسے اس کا استعمال بڑھا ویسے ویسے اس میں نئے  پہلو جڑتے گئے اور دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ کالا سفید ٹیلی ویژن مغرب کے ہر بڑے گھر کی رونق بن گیا تھا۔ پھر ایک دور آیا کہ ٹیلی ویژن نے بلیک سفید کا چولا اتار کر رنگین چولا پہن لیا یعنی ہر چیز ویسی دکھائی دینے لگی جیسے وہ ہوتی تھی۔ اس کے بعد اس میں جدت پیدا ہوتی گئی اور اب کھولنے سے لے کر اس میں کیا دیکھنا ہے اس کو صرف بولنا ہے اور وہ آپ کے سامنے حاضر ہے۔ اور وہ دن دور  نہیں جب بولنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی صرف سوچنا بھر کافی ہوگا۔

بہرحال جب ہندوستان میں امراء کے گھر سے اس ٹیلی ویژن نے مڈل کلاس گھرانوں میں قدم رکھا تو ایک انقلاب آ گیا اور اس انقلاب کو 1950 سے 1970 کے درمیان پیدا ہونے والوں نے اپنے آنکھو سے خوب دیکھا ہے۔ محلے میں جس کے گھر میں ٹیلی ویشن ہوا کرتا تھا اس کی یہ اخلاقی مجبوری بن جاتی تھی کہ وہ جب خود کوئی پروگرام ٹیلی ویژن پر دیکھے تو اس کے محلے سے آنے والے لوگوں کو گھر میں آنے سے نہ روکے۔ ویسے تو وہ خود بھی چاہتا تھا کہ لوگ آئیں اور دیکھیں کے اس کے پاس ٹیلی ویژن یعنی ٹی وی ہے۔ کچھ گھرانوں میں یہ بھی ہوتا تھا کہ وہ آنے والوں کے لئے چائے بھی بنواتے تھے۔


اتوار کی فلم ہو، بدھ کو گانوں کا پروگرام ہو یا پھر انتخابی نتائج کے درمیان  دوردرشن پر فلم پیش کرنا ہو سب دن ٹی وی والے گھروں کے لئے خاص دن ہوتا تھا۔ بڑی تعداد میں لگ ان پروگراموں کو بہت دلچسپی کےساتھ دیکھا کرتے تھے اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ لوگوں کے پاس تفریح کا یہی واحد ذریعہ ہوتا تھا۔

اب تو شائد ہی نئی نسل کو معلوم ہو کہ ٹی وی والے گھر پر ایک تین لمبی لمبی المونئم کی راڈوں کا انٹینا لگا ہوا کرتا جو تار کے ذریعہ ٹی وی سے جڑا ہوا کرتا تھا اور اس انٹینا کے ذریعہ ہی تصویر اور آواز ٹی وی میں آیا کرتی تھی۔ اگر تیز ہوا کی وجہ سے یا کسی اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ٹی وی میں آواز یا تصویر صاف نہیں آ یا کرتی تھی تو ایک شخص اوپر جاکر ٹی وی کے انٹینا کے رخ کو تبدیل کرتا تھا اور ٹی وی کے پاس بیٹھے شخص سے چیخ چیخ کر پوچھا کرتا تھا ’اب صاف ہے‘ اور جب تصویر اور آواز صاف ہو جاتی تھی تو یہ شخص اوپر سے نیچے اتر کرآ تا تھا ۔ یہ پریشانی عام اور مستقل تھی۔


نئی نسل نے اس سفر کے نہ مزے لئے ہیں اور نہ ان کو اس کا کوئی علم ہے بس انہیں تو بولنا بھر ہے اور ان کے  سامنے تصویر بمع آواز آ جاتی ہے۔ اب تو نئی نسل اپنے بنائے ہوئے پرگرام بھی اس ٹی وی پر دیکھ لیتی ہے۔ کثیر منزلہ عمارتوں میں تو ایرئل کا تصور بھی  کرنا مشکل ہے لیکن آج جو ہمارے سامنے ہے وہ ایک لمبے سفر کے بعد ہمارے سامنے آ یا ہے۔ یہ بیتے دنوں کی ہی بات ہے جب ٹی وی والے گھر میں سب رامائن دیکھنے جع ہوتے تھے اور شہر میں کرفیو جیسا ماحول ہوا کرتا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔