’فیک نیوز‘ پھیلانے میں ہندو تنظیمیں آگے، حب الوطنی کے نام پر ہو رہی مسلم دشمنی

بی بی سی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہندوستان میں لوگ بڑے پیمانے پر’فیک نیوز‘ شیئر کر رہے ہیں۔ تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ پی ایم مودی بھی ٹوئٹر پر فیک نیوز پھیلانے والوں کو فالو کرتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن یعنی بی بی سی نے ’فیک نیوز‘ (جھوٹی خبر) کی بڑھتی تشہیر کے پیش نظر ہندوستان، کینیا اور نائیجیریا میں ایک تحقیق کی ہے۔ پیر کے روز جاری اس تحقیقی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پلیٹ فارمس یعنی وہاٹس ایپ، فیس بک اور ٹوئٹر پر خبر کی تحقیق کیے بغیر یا اس کے ذرائع سے متعلق سچائی کا پتہ کیے بغیر بڑے پیمانے پر اسے شیئر کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ہندوستان غلط خبروں کے پھیلنے کے معاملے میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہاں لوگ ایسے پیغامات کو شیئر کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے جو ان کے مطابق تشدد پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہی لوگ حب الوطنی کے جذبہ سے بھرے پیغامات کو شیئر کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق ’ہندوستان میں ہندو مذہب عظیم تھا‘، ’ہندوستان کا قدیم علم اب بھی سب سے اعلیٰ ہے‘ اور ’گائے آکسیجن لے کر آکسیجن ہی چھوڑتی ہے‘ جیسی خبریں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ ہندوؤں کے وقار کی دوبارہ بحالی سے متعلق پیغامات کی بھی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ہندوتوا، وطن پرستی، مودی، فوج، حب الوطنی، پاکستان مخالف اور اقلیتوں کو قصوروار ٹھہرانے والے پیغامات بھی خوب شیئر کیے جاتے ہیں۔ ایسی خبروں کو لوگ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں شیئر کرتے ہیں اور اس میں کوئی برائی نہیں دیکھتے۔ ایسے پیغامات بھیجنے والوں کو لگتا ہے کہ وہ ملک کی تعمیر کا کام کر رہے ہیں۔

اپنی تحقیق میں بی بی سی نے اخذ کیا کہ ہندوستان میں جھوٹی خبروں سے ہندوتوا ذرائع آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ وہ ایک خاص انداز میں سرگرم رہتے ہیں جیسے وہ کوئی ذمہ داری نبھا رہے ہوں۔ اس کے برعکس الگ الگ نظریات کی وجہ سے مودی یا ہندوتوا کی سیاست کی مخالفت کرنے والوں کی آواز مودی حامیوں کی طرح متحد نہیں ہے۔

تحقیق میں بی بی سی نے کہا ہے کہ ہندوستان میں سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں اور مودی حمایت والی سیاسی سرگرمیوں میں آپسی رشتہ دیکھنے کو ملا ہے۔ تحقیق کے تحت ٹوئٹر پر 16 ہزار اکاؤنٹس کے ذریعہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے نظریاتی رجحان کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ مودی حامی کے تار آپس میں بہتر ڈھنگ سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ ایک طرح سے مل جل کر ایک مہم کی طرح کام کر رہے ہیں۔ ریسرچ میں سامنے آیا کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی ٹوئٹر پر کچھ ایسے لوگوں کو فالو کرتے ہیں جو جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں۔

غور طلب ہے کہ ٹوئٹر پر پی ایم مودی کا ٹوئٹر ہینڈل جتنے اکاؤنٹ کو فالو کرتا ہے ان میں سے 56.2 فیصد ویریفائیڈ نہیں ہیں، اور بغیر ویریفائیڈ ان اکاؤنٹ میں سے 61 فیصد بی جے پی کی تشہیر کرتے ہیں۔ یہ سبھی اکاؤنٹ ٹوئٹر پر بی جے پی کے نظریات پیش کرتے ہیں اور ٹرینڈ تک کراتے ہیں۔ ان اکاؤنٹ کے اوسط فالوور 25370 ہیں اور ان سبھی نے اوسطاً 48388 ٹوئٹ کیے ہیں۔ خود بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ ٹوئٹر پر ان اکاؤنٹ کو فالو کر پی ایم مودی عام آدمی سے جڑتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کا وزیر اعظم ان اکاؤنٹ کو فالو کر کے ایک طرح سے انھیں منظوری فراہم کرتا ہے، جن میں سے زیادہ تر لوگوں کو ٹوئٹر نے منظوری نہیں دی۔ ایسے لوگ اپنے تعارف میں خاص طور سے یہ لکھتے ہیں کہ ملک کے وزیر اعظم انھیں فالو کرتے ہیں۔

دوسری طرف ریسرچ میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ہندوستان میں مودی مخالف گروپ بھی جھوٹی خبر پھیلانے میں سرگرم ہیں لیکن ان کی تعداد اور ان کی سرگرمی مودی حمایت گروپ کے مقابلے بے حد کم ہے۔ وہ حزب مخالف سیاسی قیادت یا نظریہ سے اس طرح جڑے ہوئے نہیں ہیں جس طرح ہندوتوا حامی جڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ہندوستان کی تقسیم شدہ سماج میں نظریات الگ الگ ہونے کے باوجود مودی یا ہندوتوا کی سیاست کی مخالفت انھیں کئی بار جوڑتا ہے۔ اس کے باوجود الگ الگ نظریات کے سبب مودی مخالفین کی آواز مودی حامیوں کی طرح متحد نہیں ہے۔

اس تحقیق میں جھوٹی خبر کی تشہیر میں مین اسٹریم میڈیا کو بھی ذمہ دار پایا گیا ہے۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلہ سے نمٹنے میں میڈیا اس لیے بہت کارگر نہیں رہا کیونکہ اس کی اپنی ساکھ مضبوط نہیں ہے۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ لوگ مانتے ہیں کہ سیاسی اور تجارتی مفادات کے دباؤ میں میڈیا ’فروخت‘ ہو گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔