بٹلہ ہاؤس: مجوزہ انہدامی کارروائی کے خلاف داخل کی گئی امانت اللہ خان کی عرضی دہلی ہائی کورٹ سے خارج
جسٹس گریش کٹھپالیا اور تیجس کریا کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ ’’ہمارا خیال ہے کہ یہ معاملہ متاثرین کے ذریعہ اٹھایا جانا چاہیے۔ ہم مفاد عامہ کی عرضی پر انہدامی کارروائی سے تحفظ کا حکم نہیں دے سکتے۔‘‘

دہلی کے بٹلہ ہاؤس میں مجوزہ انہدامی کارروائی کے خلاف عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی امانت اللہ خان کی عرضی سپریم کورٹ نے خارج کر دی ہے۔ عدالت نے ان کی مفاد عامہ کی درخواست (پی آئی ایل) کو خارج کرتے ہوئے انہدامی کارروائی پر روک لگانے سے انکار کر دیا ہے۔ ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ اس معاملہ کو مفاد عامہ کی عرضی کے طور پر نہیں سنا جا سکتا، بلکہ متاثرہ لوگوں کو خود اپنی عرضی داخل کرنی ہوگی۔
جسٹس گریش کٹھپالیا اور جسٹس تیجس کریا کی ڈویژن بنچ نے سماعت کے دوران کہا کہ ’’ہمارا خیال ہے کہ یہ معاملہ متاثرین کے ذریعہ اٹھایا جانا چاہیے۔ ہم مفاد عامہ کی عرضی پر انہدامی کارروائی سے تحفظ کا حکم نہیں دے سکتے۔‘‘ ساتھ ہی عدالت نے امانت اللہ خان کو حکم دیا کہ متاثرین 3 دنوں کے اندر متعلقہ حکام کے سامنے اپنی عرضی داخل کریں۔
امانت اللہ خان کی جانب سے سینئر وکیل سلمان خورشید نے عدالت میں دلیل دی کہ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ خسرہ نمبر 279 کے دائرے سے باہر کے مکانوں کو بھی توڑنے کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ سلمان خورشید نے اسے عام نوٹس قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نوٹس بغیر کسی ذاتی معلومات کے جاری کیے گئے، جو متاثرہ لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔
سلمان خورشید نے ہائی کورٹ سے گزارش کی کہ اگر اسے مفاد عامہ کی عرضی کے طور پر نہیں سنا جا سکتا تو اسے رٹ پٹیشن کے طور پر قبول کر کے مناسب بنچ کے سامنے درج کیا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے 7 دنوں کی مہلت بھی مانگی، تاکہ اس دوران انہدامی کارروائی نہ ہو۔ حالانکہ عدالت نے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اگر ڈی ڈی اے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو عرضی گزار کو سپریم کورٹ جانا چاہیے۔
عدالت نے سماعت کے دوران یہ بھی کہا کہ بٹلہ ہاؤس کے کچھ رہائشیوں کو پہلے ہی ہائی کورٹ سے راحت مل چکی ہے۔ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے مکان خسرہ نمبر 279 کے دائرے میں نہیں آتے، جس کے لیے سپریم کورٹ نے 7 مئی کو انہدام کا حکم دیا تھا۔ ساتھ ہی عدالت نے اس بات پر بھی سوال اٹھایا کہ جب متاثرہ لوگ پہلے ہی اس معاملہ میں عرضی داخل کر چکے ہیں تو اسے مفاد عامہ کی عرضی کے طور پر کیوں سنا جائے؟
ڈی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ بٹلہ ہاؤس میں ڈی ڈی اے کی انہدامی کارروائی سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ہو رہی ہے۔ ڈی ڈی اے نے 26 مئی کو کئی عمارتوں پر نوٹس چسپاں کر دیا تھا، جس میں 15 دنوں کے اندر غیرقانونی عمارت خالی کرنے کو کہا گیا تھا۔ امانت اللہ خان نے دعویٰ کیا کہ وہ اس عرضی کے ذریعہ ان لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں جو خود اپنا مقدمہ نہیں لڑ سکتے۔ لیکن ڈی ڈی اے کے وکیل نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ امانت اللہ خان خود متاثرہ فریق نہیں ہیں اور سپریم کورٹ پہلے ہی متاثرہ لوگوں کو راحت دینے سے انکار کر چکی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔