بریلی تشدد: مولانا توقیر رضا گرفتار، 14 روزہ عدالتی حراست میں، 10 مقدمات درج
بریلی میں جمعہ کو ہوئے تشدد کے سلسلہ میں مولانا توقیر رضا کو گرفتار کر کے 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا۔ پولیس نے 10 ایف آئی آر درج کی ہیں اور دیگر 39 افراد کو حراست میں لیا ہے

اتر پردیش کے بریلی شہر میں جمعہ (26 ستمبر) کی نماز کے بعد پیش آئے تشدد کے واقعے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ اتحادِ ملت کونسل (آئی ایم سی) کے سربراہ مولانا توقیر رضا کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور عدالت کے حکم پر انہیں 14 دن کی عدالتی حراست میں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق اس معاملے میں مجموعی طور پر 10 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں جن میں سے 7 میں براہِ راست مولانا کا نام شامل ہے۔
بریلی پولیس نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جمعہ کی نماز کے بعد ہجوم نے پولیس فورس کے ساتھ دھکا مکی کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 8 افراد کو گرفتار کیا، جن میں مولانا توقیر رضا بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 39 افراد کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ 7 دنوں سے اس واقعے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی اور اس سازش میں بیرونی عناصر بھی شامل ہیں۔ پولیس نے مختلف مقامات سے چاقو، تمباکو کے دیسی اسلحے، بلیڈ اور پٹرول کی بوتلیں برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
بریلی کے ایس ایس پی انوراگ آریہ نے کہا کہ یہ واقعہ محض اتفاقی نہیں بلکہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سازش رچنے والوں نے سوشل میڈیا اور مختلف اجلاسوں کے ذریعے ماحول کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ یہ احتجاج کانپور میں عیدمیلادانبیؐ کے موقع پر نصب کئے گئے ’آئی لو محمدؐ‘ کے پوسٹر کے بعد متعدد افراد کے خلاف پولیس کے ذریعے کی گئی کارروائی پر ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے کیا جا رہا تھا۔
دوسری جانب ضلع مجسٹریٹ اویناش سنگھ نے بھی واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ نے پہلے ہی مولانا توقیر رضا اور ان کے ساتھیوں کو آگاہ کر دیا تھا کہ بی این ایس ایس کی دفعہ 163 (سابقہ سی آر پی ایف کی دفعہ 144) شہر میں نافذ ہے، جس کے تحت کسی بھی قسم کا عوامی اجتماع بغیر اجازت نہیں کیا جا سکتا۔
ڈی ایم نے بتایا کہ ان کے دفتر میں مولانا کے نمائندوں ندیم اور نفیس سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، جنہیں واضح طور پر قانونی صورتحال سمجھا دی گئی تھی۔ بعد ازاں مولانا توقیر رضا خود بھی دفتر آئے تھے اور اس وقت انہوں نے تعاون کا یقین دلایا تھا۔ یہاں تک کہ ندیم اور نفیس کے دستخط شدہ ایک تحریری خط بھی انتظامیہ کو دیا گیا، جس میں اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ کوئی غیر قانونی اجتماع نہیں ہوگا۔
تاہم، ڈی ایم کے مطابق بعد میں مولانا توقیر رضا نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے اس خط کو جعلی قرار دیا اور اعلان کیا کہ وہ اپنی ابتدائی منصوبہ بندی کے مطابق ہی آگے بڑھیں گے۔ اسی بیان کے بعد نماز جمعہ کے فوراً بعد کچھ افراد وہاں رک گئے اور اسلامیہ انٹر کالج کی طرف جانے کی کوشش کرنے لگے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ قریب 80 تا 90 فیصد نمازی گھروں کو واپس جا چکے تھے لیکن باقی افراد نے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے طاقت کا استعمال کیا اور صورتِ حال پر قابو پایا۔