بانسری سوراج کے راستے میں نئی دہلی سیٹ سے کیا ہیں مشکلیں

نئی دہلی لوک سبھا سیٹ  کی نمائندگی سوچیتا کرپلانی، بلراج مدھوک، لال کرشن اڈوانی، راجیش کھنہ، جگموہن اور اجے ماکن جیسے رہنماؤں  نے کی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

لوک سبھا انتخابات اپریل میں ہونے والے ہیں۔ بی جی پی نے دہلی کی سات میں سے پانچ سیٹوں کے لیے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔رکن پارلیمنٹ منوج تیواری کے علاوہ بی جے پی نے ان پانچ میں سے کسی پر بھی اعتماد کا اظہار نہیں کیا۔ ویسے دو نشستیں جن کے بارے میں ابھی اعلان نہیں ہوا ہے اس میں ایک  مشرقی دہلی کی ہے جس سے رکن پارلیمنٹ گوتم گمبھیر نے پہلے ہی انتخابی سیاست سے دور رہنے کے لئے کہہ دیا ہے اور ایک سیٹ جو محفوظ ہے وہ حنسراج حنس کی ہے یعنی شمال مغربی دہلی کی سیٹ وہاں بھی ان کو دوبارہ ٹکٹ دینا مشکل لگ رہا ہے۔

اس بار نئی دہلی سے  بی جے پی نے موجودہ رکن پارلیمنٹ میناکشی لیکھی کی جگہ بانسری سوراج کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ اس بار دہلی میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس اتحاد میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ نئی دہلی سیٹ اتحاد کے تحت عام آدمی پارٹی کے کوٹے میں ہے۔ اس سیٹ پر عام آدمی پارٹی نے مالویہ نگر سے تین بار کے ایم ایل اے سومناتھ بھارتی کو نامزد کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے امیدوار سپریم کورٹ میں پیشے اور پریکٹس کے اعتبار سے وکیل ہیں۔


اس وقت وزیر اعلی اروند کیجریوال نئی دہلی اسمبلی سیٹ سے ایم ایل اے ہیں۔ وہ مسلسل تیسری بار اس سیٹ پر عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ جبکہ نئی دہلی لوک سبھا سیٹ 2014 سے بی جے پی کے پاس ہے۔ ویسے بھی نئی دہلی کی پارلیمانی سیٹ پر بی جے پی کا اثر جن سنگھ کے زمانے سے ہی ہے۔ پیشے سے وکیل میناکشی لیکھی اس پارلیمانی سیٹ سے لگاتار دو بار الیکشن جیتنے میں کامیاب رہی ہیں۔ اس بار بی جے پی نے انہیں اس سیٹ سے ٹکٹ دینے کے بجائے سابق وزیر خارجہ اور سشما سوراج کی بیٹی بانسری سوراج کو میدان میں اتارا ہے۔

موجودہ حالات کو دیکھا جائے  توبانسری کے لئے یہ سیٹ جیتنا آسان نہیں ہے جبکہ وہ میناکشی لیکھی سے زیادہ متحرک اور جوش سے بھری ہوئی نظر آتی ہیں  ۔ اس سیٹ پر مقابلہ ناسوری  کے لیے سخت ثابت ہونے والا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کے امیدوار سومناتھ بھرت نے دہلی کی سیاست میں اپنا الگ نام بنایا ہے۔ وہ انا تحریک میں حصہ لینے کے بعد سیاست میں آئے اور تب سے وہ دہلی کی ایک بہت ہی اعلیٰ اسمبلی سیٹ مالویہ نگر سے ایم ایل اے ہیں۔ اس دوران وہ خاندانی اور سیاسی وجوہات کی بناء پر کئی بار سرخیوں میں آئے لیکن انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ وہ اس سیٹ سے مسلسل الیکشن جیت رہے ہیں۔ سومناتھ بھارتی کو سی ایم اروند کیجریوال کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت وہ دہلی جل بورڈ کے وائس چیئرمین بھی ہیں۔


بانسری سوراج بی جے پی کی سینئر خاتون لیڈر سشما سوراج کی بیٹی ہیں۔ انہیں سیاست ورثے میں ملی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بانسری اچھی مقرر ہیں اور سپریم کورٹ میں پریکٹس کرنے والے وکیل ہیں۔ وہ نوپور شرما کے متنازعہ بیان پر سپریم کورٹ میں مؤثر طریقے سے کیس پیش کرکے سرخیوں میں رہی ہیں۔ ساتھ ہی بی جے پی نے انہیں ٹکٹ دے کر امیدوار بنایا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ بانسری اور سومناتھ ہندوستانی سیاست کے نوجوان لیڈر ہیں۔

نئی دہلی لوک سبھا سیٹ 1951 میں وجود میں آئی۔ اس سیٹ پر بی جے پی کا ہمیشہ غلبہ رہا ہے۔ حالانکہ اس سیٹ پر کانگریس بھی کئی بار الیکشن جیت چکی ہے۔ سوچیتا کرپلانی، بلراج مدھوک، لال کرشن اڈوانی، جگموہن اور اجے ماکن  جیسے لیڈر اس سیٹ کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ سابق پی ایم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے الیکشن لڑا تھا، لیکن انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 1952 کی انقلابی اور آزادی پسند سوچیتا کرپلانی نے کسان مزدور پارٹی کے ٹکٹ پر اس سیٹ سے الیکشن جیتا تھا۔ انہوں نے خود یہ پارٹی بنائی تھی۔ 1957 میں انہوں نے کانگریس کے ٹکٹ پر یہ سیٹ جیتی۔


1961 میں بھارتیہ جن سنگھ کے بلراج مدھوک نے نئی دہلی سیٹ سے الیکشن جیتا تھا۔ 1962 میں کانگریس کے مہر چند کھنہ، 1967 میں بی جے پی کے پروفیسر منوہر لال سونگھی، 1971 میں کانگریس کے کرشن چندر پنت، 1977 اور 1980 میں بی جے پی کے ٹکٹ پر اٹل بہاری واجپائی، 1984 میں بی جے پی کے کرشن چندر پنت۔ 1989 اور 1991 لال کرشن اڈوانی، 1992 میں کانگریس کے ٹکٹ پر راجیش کھنہ، 1996، 1998 اور 1999 میں بی جے پی کے جگموہن، 2004 اور 2009 میں کانگریس کے اجے ماکن، اس کے بعد 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی میناکشی لیکھی۔ اب اس سیٹ پر انتخابی مقابلہ سومناتھ بھارتی اور بانسری کے درمیان ہوگا۔ بانسری کے حق میں جہاں ان کا سشما سوراج کی بیٹی ہونا جاتا ہے وہیں ان کو اپنی ہی پارٹی کی میناکشی لیکھی کی ناراضگی جھیلنی پڑ سکتی ہے ۔ روایتی طور پر اس سیٹ کو بی جے پی کی سیٹ تصور کیا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ کانگریس نے بھی یہ سیٹ متعدد مرتبہ جیتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔