بنارس: سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ’بی ایچ یو‘ کے پروفیسروں کی دستخط مہم

بی ایچ یو کے طلباء کی گرفتاری کے بعد اسی دن پولیس نے وارانسی کے مختلف علاقوں میں لاٹھی چارج کیا تھا، جس کے بعد بھگدڑ میں آٹھ سالہ بچہ جاںبحق ہو گیا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

وارانسی: شہریت (ترمیمی) قانون (سی اے اے) اور قومی شہریت رجسٹر (این آر سی) کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاج اور مظاہروں کے درمیان بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کے پروفیسروں نے بھی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ بی ایچ یو کو ہمیشہ سے دائیں بازو کی حمایت کرنے والے ادارے کے طور پر جانا جاتا رہا ہے اور شاذ و نادر ہی مرکزی دھارے کی سیاست میں اس نے حصہ لیا ہے۔ اب بی ایچ یو اور اس سے وابستہ کالجوں کے 51 پروفیسرز کے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف دستخطی مہم چلانے پر کچھ لوگوں کو کافی حیرت ہو رہی ہے۔

یہ اقدام 19 دسمبر کو بائیں بازو کی تنظیموں کے مطالبے پر مظاہرے میں شامل ہونے والے بی ایچ یو کے نصف درجن طلباء کی گرفتاری کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ گرفتار شدہ 12 طلبہ میں سے تین پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں جبکہ آٹھ ایم اے میں زیر تعلیم ہیں۔ گرفتار کیے گئے تین طلباء یونیورسٹی کیمپس کے اندر رہتے ہیں اور ایف آئی آر کے ایڈریس سیکشن میں اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔


پروفیسروں کی جانب سے ایک دستخط شدہ خط میں کہا گیا ہے، ’’ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ سی اے اے کے طویل مدتی اثرات پر دوبارہ غور کرے۔ امید ہے کہ جانبدار سیاست پر قومی مفاد کی فتح ہوگی۔ ہم مظاہرین سے بھی کسی بھی طرح کے تشدد میں ملوث نہ ہونے اور جمہوری و پرامن طریقوں سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔‘‘


بی ایچ یو کے طلباء نے سی اے اے کے معاملہ میں گرفتار طلباء سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے گرفتار شدہ 69 افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بی ایچ یو کے طلباء کی گرفتاری کے بعد اسی دن پولیس نے وارانسی کے مختلف علاقوں میں لاٹھی چارج کیا تھا، جس کے بعد بھگدڑ میں آٹھ سالہ بچہ جاںبحق ہو گیا تھا۔

طلباء کا دعویٰ ہے کہ وہ پرامن مظاہرہ کر رہے تھے۔ طلباء کے علاوہ عام شہریوں اور سماجی کارکنان کو بھی 19 دسمبر کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ وارانسی پولیس نے مجموعی طور پر 69 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ علاوہ ازیں، متعدد مقامات پر پولیس نے مبینہ فساد کرنے والوں کی تصاویر بھی چسپاں کر دی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔