بابری مسجد کیس: صرف مسلمانوں کے وکیل سے ہی کیوں پوچھے جا رہے سوال... راجیو دھون

بابری مسجد۔رام جنم بھومی تنازعہ معاملہ کی سنوائی کا یہ آخری ہفتہ ہے اور سنی وقف بورڈ کی جانب سے راجیو دھون نے سپریم کورٹ میں آخری مرتبہ اپنا موقف رکھا

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ کی آئینی بینچ کے سامنے آخری مرتبہ پیش ہوتے ہوئے مسلم فریق کے وکیل راجیو دھون نے بنچ سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ جو بھی سوال پوچھے جاتے ہیں وہ مسلم فریق سے ہی پوچھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کیس کی سنوائی کے دوران تمام سوال ہم (مسلم فریق) سے ہی کیے جاتے ہیں۔ کبھی ہندو فریق سے سوال نہیں کیے جاتے۔‘‘ راجیو دھون کے اس بیان پر جسٹس جے ایس ویدیاناتھن نے اعتراض جتاتے ہوئے کہا کہ ایسے بیانات سے پرہیز کیا جانا چاہیے اور یہ غیر ضرورری ہے۔

اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے راجیو دھون نے کہا کہ آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی رپورٹ میں مندر انہدام کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ تالا کھلنے کے بعد بھی ہندوؤں کا وہاں پر قبضہ نہیں رہا، ہندوؤں کے پاس صرف پوجا (عبادت) کرنے کا حق تھا۔ اس پر جب جسٹس ایس اے بوبڈے نے کہا ’’اگر ان (ہندوؤں) کے پاس عبادت کا حق تھا تو یہ آپ کی ملکیت کے دعوے کو ختم کرتا ہے‘‘۔ جسٹس بوبڈے کے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے دھون نے سمجھانے کے انداز میں کہا ’’میں زمین کا مالک ہوں اور اگر کوئی مجھ سے کہے کہ کیا میں ہاتھ دھو سکتا ہوں اور میں اس کی درخواست مان لیتا ہوں۔ بس یہ معاملہ ایسا ہی ہے۔‘‘


راجیو دھون نے کہا کہ یہ معاملہ قصہ کہانیوں والا نہیں ہے یہ معاملہ حقیقی بنیادوں پر ہے۔ آرکیولوجیکل سروے ایک سائنس ہے اور جو دوسرے فریق ذکر کر رہے ہیں وہ قصہ کہانیوں کی بنیاد پر ہے۔ انہوں نے کہا ’’یہاں قصہ کہانیوں کے ذریعہ اپنا دعوی کیا جا رہا ہے۔ میں کسی مسافر کی ڈائری یا عقیدہ کی بات نہیں کروں گا، میں صاف الفاظ میں کہوں گا کہ ہندوؤں کا کوئی مکمل قبضہ نہیں ہے، ان کے پاس صرف باہری حصہ پر پوجا کا حق تھا۔‘‘ دھون نے کہا کہ متنازعہ زمین پر مستقل ہمارا (مسلم فریق) قبضہ رہا ہے اور 1989 سے پہلے ہندو فریق نے کبھی زمین کے مالکانہ حق کا دعوی بھی پیش نہیں کیا۔ جبکہ 1986 میں رام چبوترے پر مندر بنانے کے لئے مہنت دھرم داس کے مطالبہ کو فیض آباد کی عدالت خارج کر چکی ہے۔

راجیو دھون نے کہا کہ ہندو فریق نے کبھی مالکانہ حق کا نہ دعوی کیا اور نہ مطالبہ کیا، جبکہ مسلم فریق کو اس تعلق سے گرانٹ بھی ملی جو یہ ثابت کرتی ہے کہ زمین کا مالکانہ حق ہمارے(مسلم فریق) پاس ہے اور مسجد پر ناجائز قبضہ کرنے کی کارروائی کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ دسمبر 1992 ایک حقیقت ہے جس کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گنبد کے نیچے رام کی پیدائش ہونے کا دعوی کبھی ثبت نہیں ہو پایا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Oct 2019, 4:10 PM