بابری مسجد: فیصلہ چاہے جو ہو، اسے ہندو مسلمان کا رنگ نہیں لینے دیں گے، وی ایچ پی

وی ایچ پی نے کہا کہ فیصلہ چاہے جو ہو، وہ اسے ہندو مسلمان کا فرقہ وارانہ رنگ نہیں لینے دیں گے اور نہ ہی کاشی یا متھرا کا مسئلہ اچھالنے کی کوشش کریں گے

قومی آواز گرافکس
قومی آواز گرافکس
user

یو این آئی

نئی دہلی: ایودھیا کے بابری مسجد رام مندر تنازعہ معاملہ پر فیصلہ آنے سے قبل اہم ہستیوں اور فرقین کی جانب سے امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ضمن میں منگل کے روز اکھل بھارتیہ سنت کمیٹی، (راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ چاہے جو ہو، وہ اسے ہندو مسلمان کا فرقہ وارانہ رنگ نہیں لینے دیں گے اور نہ ہی کاشی یا متھرا کا مسئلہ اچھالنے کی کوشش کریں گے۔

ملک میں سادھو سنتوں کی اہم تنظیم اکھل بھارتیہ سنت کمیٹی کے قومی جنرل سکریٹری دنڈي سوامی جيتندرانند سرسوتی نے ملک کے تمام سنتوں کو ایک خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ تمام سنت اس موضوع کو شکست و فتح سے دور رکھ کر قومی اتحاد اور سالمیت برقرار رکھنے میں تعاون کریں۔ ان کی گفتگو اور تقریر معاشرے میں اشتعال پیدا نہ کریں۔ کسی کو چڑھانے کا کام نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے یا بعد میں سنتوں کی رائے صحافیوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے تک پہنچے گی۔ سب سے درخواست ہے کہ اگر کسی کو خوشی کا اظہار کرنا بھی ہو تو وہ اپنے گھر میں ذاتی پوجا پاٹھ، بھجن کیرتن کرکے مسرور ہوں۔ کسی بھی قسم کی رائے کا اظہار کرنے کی بجائے اپنے بھکتوں اور ساتھیوں کو معاشرے میں امن برقرار رکھنے کے لئے حوصلہ افزائی کریں۔


آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے اعلی سطحی ذرائع کے مطابق سنگھ نے بھی معاشرے میں نیچے تک یہ پیغام دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو لے کر کسی کی ہار یا جیت کے طور پر تبصرہ نہ ہو۔ اگر ’موافق‘ فیصلہ آتا ہے تو اسے صرف سچ اور انصاف کے حق میں فیصلہ کہہ کر تحمل برتا جائے۔ اسے ہندو اور مسلمان کے درمیان فرقہ وارانہ رنگ دینے سے بچایا جائے۔ صرف یہی سمجھا جائے کہ ایک تاریخی ’غلطی کو ٹھیک کیاگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ’برعکس‘ فیصلہ آتا ہے تو بھی ہندو سماج مکمل تحمل برتےگا اور اسے سپریم کورٹ کی بڑی بینچ میں چیلنج کرنے یا پارلیمنٹ میں قانون بنوانے کی کوشش کرنے جیسے عدالتی اور آئینی راستہ پر ہی چلے گا۔ اس بارے میں رائے عامہ تیار کرے گا، لیکن کسی بھی حالت میں اشتعال یا افراتفری کو ہوا دینے والے رخ کو نہیں اپنائےگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اجودھیا کا فیصلہ آنے کے بعد کاشی یا متھرا یا حملہ آور کی طرف سے توڑے گئے دیگر مندروں کے بارے میں بیان دینے یا بحث شروع کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔


یہ پوچھے جانے پر کہ رام مندر کے حق میں فیصلہ آنے پر مسلمانوں کے لئے کیا پیغام جائے گا ذرائع نے کہا کہ سنگھ کا خیال ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ ان کے باپ دادا محمود غزنوی، محمد غوری یا بابر جیسے حملہ آور نہیں ہیں۔ ان حملہ آوروں سے بہت پہلے ہی اسلام ہندوستان میں آ چکا تھا اور ہندوستان کی پہلی مسجد پیغمبر اسلام حضرت محمد کی زندگی کے دوران ہی کیرالہ کے كوڈنگلور علاقے میں بنائی گئی تھی۔ کیرالہ کے ضلع ترشور میں واقع چیرامن پیرومل مسجد اپنی سیکولر نظریے کے لئے مشہور ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ غزنوی، غوری اور بابر کو آباء اجداد ماننے والے نظریہ نے ہی پاکستان بنوایا ہے۔ جب ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں نے پاکستان کو مسترد کرکے وہاں کی بجائے ہندوستان میں ہی رہنا پسند کیا تو انہیں پاکستان کی تشکیل کے نظریات سے بھی کنارا کر لیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کے لئے یہی پیغام ہے کہ ’ون نیشن ون پیوپلز‘ اور مذہب ان کی شناخت نہیں ہے بلکہ ہزاروں سال پرانی ثقافت اور ورثے ہی ان کی شناخت ہے۔


ذرائع نے یہ بھی کہا کہ ان کی جدوجہد مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ حملہ آوروں کو پوجنے یا ہیرو ماننے والے نظریات سے ہے۔ ہم مسلمانوں کوحملہ آوروں کی بجائے ہندوستان کے ثقافتی ورثے سے منسلک کرنے کے حق میں ہیں۔ انہوں نے رام مندر تحریک کو ثقافتی غلامی سے نجات کی تحریک بتایا اور کہا کہ اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا کام تو 1947 میں سومناتھ کے مندر کے ساتھ ہی ہوجانا چاہئے تھا لیکن اب 72 سال بعد اس کے حل کی امید جاگی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Nov 2019, 5:11 PM