بابری مسجد معاملہ: رام للّا کے وکیل کی بحث آٹھویں روز بھی نامکمل

اپنی نا مکمل بحث کا آغاز کرتے ہوئے آئینی بینچ کو بتایا کہ مندر کو منہدم کرکے مسجد کی تعمیرکی گئی تھی اس کے باوجود ہندو اس جگہ پر عبادت کی غرض سے جاتے رہے ہیں۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: بابری مسجد ملکیت معاملہ کی حتمی سماعت آج آٹھویں دن میں داخل ہوئی جس کے دوران رام للا کے وکیل سی ایس ودیا ناتھن نے اپنی نا مکمل بحث کا آغاز کرتے ہوئے آئینی بینچ کو بتایا کہ مندر کو منہدم کرکے مسجد کی تعمیرکی گئی تھی اس کے باوجود ہندو اس جگہ پر عبادت کی غرض سے جاتے رہے ہیں نیز محکمہ آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران جو پتھروں کے سلیب ملے تھے اس پر سنسکرت میں تحریر تھا جو بارہویں صدی کا معلوم ہوتا ہے۔

جمعیۃ علما ہند کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق، ایڈوکیٹ ویدیا ناتھن نے سنسکرت میں لکھے ہوئے الفاظ عدالت میں پڑھ کر سنانے کے بعد اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ اس پر لکھا ہے ’ایودھیا صدر مقام تھا اور وہاں ایک وشنو مندر تھا۔‘ اس معاملہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس عبد النظیر شامل ہیں، کو سینئر ایڈوکیٹ سی ایس ویدیا ناتھن نے بتایا کہ سنسکرت میں کیا لکھا ہے اس پر کسی کو اعتراض نہیں بلکہ اعتراض اس بات پر ہے کہ آیا وہ سلیب متنازعہ جگہ سے کھدائی کے دوران نکلا تھا۔


اس کے بعدسی ایس ویدیا ناتھن نے عدالت کو اس جگہ کی تصاویر بتائیں جہاں سے سلیب نکالا گیا تھا اور اس وقت وہاں ایک صحافی موجود تھا جس نے عدالت میں گواہی بھی دی تھی۔ ایڈوکیٹ ویدیا ناتھن نے آج متعدد گواہوں کی گواہیاں پڑھیں جنہوں نے اپنے بیانات میں ایودھیا میں رام مندر کے ہونے کا دعوی کیا تھا۔ 91 سالہ گواہ رام ناتھ مشرا، جس نے دوران گواہی کہا تھا کہ اس کی شادی کے بعد وہ مہمانوں کے ہمراہ ایودھیا گیا تھا اور اس نے رام مندر میں مذہبی امور کی ادائیگی کی تھی۔

رامناتھ نے اپنی گواہی میں مزید بتایا تھا کہ وہ ایودھیا میں اکثر رام کی مورتی کی پوجا کر نے جاتا تھا اور متنازعہ عمارت اس وقت ہندوؤں کے قبضہ میں تھی۔ سینئر ایڈوکیٹ ویدیا ناتھن نے رامناتھ کی گواہی کے بعد محمد ہاشم کی گواہی پڑھی اور کہا کہ ایودھیا ہندووں کیلئے ایک مقدس اور پوتر استھان ہے۔ عدالت میں سینئر وکیل سی ایس ویدیاناتھن نے گواہ محمد قاسم کی گواہی پڑھی جس پر جسٹس بوبڑے نے سی ایس ویدیاناتھن سے پوچھا کہ آیا یہ شخص شیعہ تھا یا سنی جس کے جواب میں ویدیاناتھن نے کہا کہ ممکن ہے وہ سنی تھا۔


اسی درمیان بینچ نے ایڈوکیٹ سی ایس ویدیا ناتھن سے پوچھا کیا مسلم گواہوں نے مسجد میں نماز پڑھنے کے تعلق سے کچھ کہا ہے جس پر انہوں نے کہا کہ اس کے لئے انہیں مسلم گواہوں کی گواہیاں پڑھنی پڑیں گی۔ گواہیاں پڑھنے کے بعد ایڈوکیٹ ویدیا ناتھن نے عدالت کے سامنے ماضی کے فیصلوں کی نقول کی دوسری جلدپیش کی، فیصلوں کے نقول کی پہلی جلد وہ پہلے عدالت میں پیش کرچکے ہیں، اسی درمیان عدالت کا وقت ختم ہو گیا اور عدالت نے اپنی کارروائی کل تک کے لیئے ملتوی کردی۔ امید ہے کہ کل ویدیاناتھن کی بحث کے بعد جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون بحث کا آغاز کریں گے۔

واضح رہے کہ بابری مسجدملکیت مقدمہ معاملہ پر صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی برابر اپنے وکلاء سے رابطہ میں ہیں اور پل پل کی خبر پر نظررکھے ہوئے ہیں،بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت پٹیشن نمبر10866-10867/2010 پر بحث کے دوران جمعیۃ علماء ہندکی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ کنورادتیہ سنگھ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیاو دیگر موجود تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Aug 2019, 8:10 PM