بابری مسجد معاملہ: آئینی بنچ کو نہ بھیجنے پر دھون کے چبھتے سوال

ایودھیا معاملہ ایسا واحد معاملہ ہے جو ہندوستانی سیکولرزم کو سیدھے طور پر متاثر کرتا ہے اور یہ معاملہ ہندوستان کو ہلا کر رکھ دے گا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بابری مسجد ۔رام جنم بھومی مقدمہ کی سماعت کے دوران کل عدالت میں زبر دست ہنگامہ ہوا ۔ مسلمانوں کی جانب سے سماعت کے دوران بحث کرتے ہوئے معروف وکیل راجیو دھون نے چیف جسٹس آف انڈیا کی قیادت والی بنچ سے سوال کیا ’’ آپ نے کثرت ازدواج (polygamy)کے معاملے کو تو آئین بنچ میں بھیج دیا لیکن بابری مسجد معاملہ کو آپ آئینی بنچ میں بھیجنے سے پرہیز کر رہے ہیں کیا کثرت ازدواج کا معاملہ بابری مسجد۔رام جنم بھومی معاملہ سے زیادہ اہم ہے‘‘۔ راجیو دھون کے سخت موقف اختیار کرنے پر ہندوؤں کی جانب سے نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کے پرسارن نے دھون کے بیان پر عدالت سے کہا ’’یہ جج حضرات کو دھمکانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ پرسارن کے اس بیان پر دونوں وکلا ء میں کافی سخت کلامی ہوئی ۔

راجیو دھون نے عدالت سے کہا ’’ایودھیا معاملہ ایسا واحد معاملہ ہے جو ہندوستانی سیکولرزم کو سیدھے طور پر متاثر کرتا ہے اور یہ معاملہ ہندوستان کو ہلا کر رکھ دے گا‘‘۔ ایک موقع ایسا بھی آیا جب بنچ نے انہیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا ’’میں آپ کا احترام کر رہا ہوں لیکن وہ بکواس نہیں سن رہے جو میں یہاں کھڑے ہو کر سن رہا ہوں ‘‘۔ ان کے اس بیان پر مخالف وکیل پرسارن نے کہا ’’عدالت میں ڈیکورم بنائے رکھنا چاہئے اور جو الفاظ وہ استعمال کر رہے ہیں اس سے انہیں پرہیز کرنا چاہئے‘‘۔

واضح رہے ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت سے متعدد مرتبہ سوال کیے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ کثرت ازدواج زیاد اہم ہے یا بابری مسجد مقدمہ۔ اس سے کروڑوں ہندوستانیوں کے جذبات جڑے ہوئے ہیں، ڈاکٹر دھون کی درخواست پر سہ رکنی بنچ نے کسی بھی طرح کی رائے نہ دیتے ہوئے انہیں حکم دیا کہ وہ نہ مکمل بحث کو مکمل کریں اس معاملے پر عدالت سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن کی بحث کی سماعت کے بعد ہی کوئی فیصلہ صادر کرےگی۔

ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ یہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ بابری مسجد ملکیت تنازعہ کی سماعت کثیر رکنی بنچ کے سپرد کی جائے کیونکہ یہ بہت حساس معاملہ ہے اور ضخیم ریکارڈ بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ اس معاملے کی سماعت تین رکنی بنچ کے روبرو ہو۔

چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی تین رکنی بنچ میں جسٹس عبدالنظیر اور جسٹس بھوشن شامل ہیں۔ کل دوپہر دو بجے بابری مسجد مقدمہ کی سماعت شروع ہوتےہی ڈاکٹر راجیو دھون نے نا مکمل بحث کا دوبارہ آغاز کیا ہے اور کہا کہ ابھی حال ہی میں چیف جسٹس آف انڈیا نے نکاح ،حلالہ او ر کثرت ازدواج کے معاملے کی سماعت آئینی بنچ کے سپرد کیے جانے کے احکامات جاری کیے تھے لہذا بابری مسجد مقدمہ کی نوعیت اس سے کہیں زیادہ حساس ہے جسے آئینی بنچ کے سپرد کیا جانا چاہیے۔

ڈاکٹر راجیو دھون نے سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے گئے اسماعیل فاروقی فیصلہ میں کی گئی غلطیوں کو عدالت کے سامنے تفصیل سے اجاگر کیا جس کا سہارا لے کر الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ نماز کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے جو درست نہیں ہے۔ آج بھی ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے اپنی سماعت 27 اپریل تک کے لئے ملتوی کردی ہے۔

بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لےکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 پر بحث میں جمعیۃ علماء کی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے بحث کی جبکہ ان کی معاونت کے لئے ڈاکٹر راجو رام چندر، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ مجاہد احمد ، ایڈوکیٹ خالد شیخ و دیگر موجود تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔