اعظم خان کو مشروط ضمانت مگر عدالت کا سخت تبصرہ، ’طاقت کے نشے میں عہدے کا غلط استعمال کیا‘

طاقت آدمی کو کرپٹ کر دیتی ہے اور اگر اسے پوری طاقت مل جائے تو وہ اسے پوری طرح کرپٹ کر دیتی ہے۔ ایسی حالت میں انسان خدا کو بھی نہیں چھوڑتا۔

اعظم خان، تصویر آئی اے این ایس
اعظم خان، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے سماجوادی رہنما اور سابق وزیر اعظم خان کو راحت ضرور دی لیکن راحت دیتے وقت ان کے خلاف سخت تبصرہ کیا۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار نے طاقت کے نشے میں اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا۔ عدالت نے کہا کہ ضمانت کسی بھی ملزم کا حق ہے۔ لہذا ضمانت جو دی جا رہی ہے اس میں عدالت درخواست گزار کی بگڑتی ہوئی صحت، بڑھاپے اور جیل میں رہنے کے وقت کو مدنظر رکھ رہی ہے۔

درخواست گزار 72 سال کی عمر کے بزرگ شہری ہیں، جو بڑھتی عمر کے ساتھ بیماریوں جیسے ہائی بلڈ پریشر اور دیگر سنگین مسائل میں مبتلا ہیں۔ عدالت کو یہ بھی معلوم ہے کہ حالیہ کورونا کے مرض میں مبتلا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ تقریباً ایک ماہ تک اسپتال میں رہے اور ان کے گردے اور اہم اعضاء بری طرح متاثر ہوئے۔ موجودہ کیس میں چارج شیٹ پہلے ہی داخل کی جا چکی ہے اور ان کے خلاف درج مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے۔


عدالت نے یونیورسٹی کے قیام کے ذریعے روہیل کھنڈ خطے میں نوجوانوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے درخواست گزار کی تعریف بھی کی۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس پورے معاملے کو دیکھتے ہوئے عدالت حیران ہے کہ درخواست گزار اپنے خوابوں کو آگے بڑھانے کے لیے محمد علی جوہر یونیورسٹی کے نام پر کاروباری کی طرح کام کرتا رہا۔ عدالت نے کہا کہ آپ جو کام کر رہے ہیں وہ نہ صرف پاک ہو بلکہ اس کے لئے جو ذریعہ استعمال ہو رہے ہیں وہ بھی شفاف اور پاک ہیں۔

اگر کوئی کابینہ کا وزیر دھوکہ دہی کا برتاؤ کرتا ہے تو اس سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور منصوبے کے تقدس کو داغدار کیا جاتا ہے۔ عدالت نے ونسٹن چرچل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کا اولین فرض علم سکھانا ہے کاروبار کرنا نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ درخواست دہندہ یونیورسٹی کے قیام کی آڑ میں کاروبار کر رہا ہے اور کسی خالی جائیداد کو بالواسطہ ہتھیانے کے لئے صلاحیتوں کا استعمال کر رہا ہے۔


عدالت نے کہا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے بھی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے ذرائع کے تقدس پر زور دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار نے مذہب کی آڑ میں غیر قانونی طور پر زمین پر قبضہ کرنے کے لیے خود کو الگ کیا اور اس جائیداد کو وقف املاک میں شامل کرایا۔

عدالت نے کہا کہ اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یعنی ایک پرانی کہاوت ہے کہ طاقت آدمی کو کرپٹ کر دیتی ہے اور اگر اسے پوری طاقت مل جائے تو وہ اسے پوری طرح کرپٹ کر دیتی ہے۔ ایسی حالت میں انسان خدا کو بھی نہیں چھوڑتا۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ جب کسی شخص کی طاقت بڑھتی ہے تو اس کی اخلاقیات کا احساس کم ہوتا جاتا ہے۔ یہ بیان 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں ایک برطانوی مورخ لارڈ ایکٹن نے دیا تھا۔ یہ نظریہ آج بھی درست ہے۔


عدالت نے کہا کہ جو لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں اکثر ان کے ذہن میں عوام کا مفاد نہیں ہوتا۔ وہ بنیادی طور پر اپنے فائدے پر مرکوز رہتے ہیں اور اپنی مدد کے لیے اپنے عہدے یا طاقت کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ موجودہ کیس میں بھی درخواست گزار کابینہ کے وزیر تھے اور ایک طاقتور شخص ہونے کے ناطے انہوں نے ایک ایسی یونیورسٹی کے قیام کا خواب دیکھا جسے ذاتی جاگیر کی طرح سمجھتے رہے اور جس میں وہ خود مستقل چانسلر ہوں اور وہ اس کے لیے تمام غیر قانونی، غلط طریقوں کو اپناتے ہوئے کسی بھی حد تک گئے۔ عدالت نے مشروط ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار متنازع زمین کو سرکار کے حوالے کردیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔