بابری مسجد-رام جنم بھومی کیس: ’قبریں ہونے سے مسجد کی شرعی حیثیت ختم نہیں ہوتی‘

ایڈووکیٹ نظام پاشا نے آئینی بنچ کو بتایا کہ حضرت نظام الدین اولیا اور اجمیر شریف میں درگاہوں کے پاس قبریں موجود ہیں لہذا مسجد کے پاس قبریں ہونے سے مسجد کی شرعی حیثیت ختم نہیں ہوجاتی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ میں ایودھیا تنازعہ کی سماعت کے 34ویں دن پیرکو مسلم فریق نے کہا کہ 1885کا مقدمہ اور حالیہ مقدمہ ایک جیسا ہے اور دونوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ1885میں متنازع مقام کی ایک جگہ پر دعویٰ کیا گیا تھا جب کہ اب پورے حصے پر دعو یٰ کیا گیا ہے۔مسلم فریق کے وکیل شیکھر نافڈے نے کہاکہ اب ہندوفریق اپنے دعوے کا دائرہ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعزیرات ہند میں درج ریس جیوڈیکاتا کے تحت اسی تنازع کو ہندو فریق دوبارہ نہیں اٹھاسکتے۔

جیوڈیکاتا ضابطہ (ایک ہی طرح کے موضوع پر دو بار مقدمہ دائر نہیں کیا جاسکتا) کو الہ آباد ہائی کورٹ نے نظر انداز کردیا تھا۔اس دوران اس معاملے میں ثالثی کی امیدوں کو آج اس وقت دھچکا لگا جب رام للا وراجمان نے کہا کہ اسے عدالت کے فیصلے پر ہی بھروسہ ہے۔ نافڈے نے اپنی نا مکمل بحث شروع کرنے سے قبل کہا کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ عدالت پر اس معاملہ کی جلد از جلد سماعت مکمل کرنے کا دباﺅ ہے اس لئے ان کی کوشش ہوگی کہ وہ کم وقت میں اپنی بات عدالت کے سامنے رکھ سکیں۔نافڈے کی بحث کے درمیان جسٹس بوبڑے نے کہا کہ مہنت رگھوبر داس نے ذاتی حیثیت سے سوٹ داخل کیا تھا، ہندﺅں کی جانب سے ایساکوئی سوٹ کبھی داخل نہیں کیا گیا تھا جس پر نافڈے نے کہاکہ مہنت،مٹھ اور ہندﺅں کے قانونی نمائندے ہوتے ہیں لہذا عدالت کو اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔


نافڈے نے عدالت کو مزید بتایا کہ ہندوﺅں کے 1885 میں داخل کیے گئے سو ٹ میں مسجد کے ہونے کا ذکر ہے اور انہوں نے رام چبوترے پر دعویٰ کیا تھا جس پرعدالتی کمیشن نے انہیں کہا تھا کہ ہندو اپنے حقوق سے تجاوز کررہے ہیں۔اسی درمیان نافڈے کی بحث کا اختتام ہوا جس کے بعد مصباح الدین نامی عرضی گذار کی جانب سے ایڈوکیٹ نظام پاشانے بحث شروع کی اور پانچ رکنی آئینی بنچ کو بتایا کہ حق ملکیت کا معاملہ ہمیشہ سے موجودہ دور کے قانون کی مدد سے حل کیا جاتا ہے، اس لئے قانون شریعت کو اس میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔

پاشا نے عدالت کو مزید بتایاکہ بابری مسجد قانونی تھی یا نہیں، یا اس میں وضو کرنے کی سہولت تھی یا نہیں پر بحث کرنے کے بجائے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ مسلمان اسے مسجد مانتے تھے یا نہیں نیز یہ کہناکہ مسجد میں ستون نہیں ہوتے،پوری طرح سے غلط ہے انہوں نے کہا کہ احادیث میں لفظ تصاویر آیا ہے اس کا ہندی معنی تصویر ہوتا ہے، مسجد میں تصاویر لگانے کی ممانعت ہوتی ہے لہذا مسجد کے ستونوں پر تصاویر ہونے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا نیز ایسی متعد د مساجد ہیں جس میں مینار، وضو خانہ، استنجا خانے وغیرہ نہیں ہیں لیکن شرعی طور پر ان کا شمار مسجد میں ہوتا ہے جیسے افسر والامسجد (ہمایوں مقبرہ)جمالی کمالی مسجد، سدی سید مسجد (احمد آباد) کابلی باغ مسجد (پانی پت)وغیرہ شامل ہیں۔


پاشا نے عدالت کو بتایا کہ فریق مخالف نے دوران بحث یہ کہا تھا کہ مسجد کے پاس قبریں نہیں ہوسکتیں، انہیں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت نظام الدین اولیا اور اجمیر شریف میں درگاہوں کے پاس قبریں موجود ہیں لہذا مسجد کے پاس قبریں ہونے سے مسجد کی شرعی حیثیت ختم نہیں ہوجاتی نیز اگر مسجد میں ایک شخص بھی نماز ادا کرتا رہے گا مسجد قائم رہے گی۔ایڈوکیٹ نظام پاشا نے آئینی بنچ کومزید بتایا کہ متنازعہ اراضی پر تعمیر شدہ عمارت کیا مسجد تھی اس کا فیصلہ شرعی قانون کے حساب سے نہیں بلکہ ملک کے موجودہ قانون کے تحت کیا جانا چاہیے کیونکہ ہندوستان میں شرعی قانون نہیں چلتا ایسے میں مسجد کی شرعی حیثیت پر بحث نہیں ہونا چاہیے بلکہ جس وقت مسجد وقف بورڈ کی ملکیت بنی تب مسجد کی کیا حقیقت تھی نیز مسجد کو شہید کیے جانے پر بحث ہونا چاہیے نہ کہ اس کی تعمیر پر۔

ایڈوکیٹ نظام پاشا نے عدالت میں 123 صفحا ت پر مشتمل تحریری نوٹس بھی پیش کیے اور عدالت کوبتایا کہ مسجد کی تعمیرپر فریق مخالف نے بحث کی لیکن مسجد کی شہادت پر انہوں نے عدالت میں کچھ بھی نہیں کہا ہے حالانکہ آج عدالت میں معاملہ مسجد کی شہادت کا ہے تعمیر کا نہیں۔انہوں نے کہا کہ نرموہی کا مطلب ہوتاہے انہیں کسی بھی چیز کے قبضہ سے کوئی سرو کار نہیں ہے لہذ ا آج اگر عدالت مذہبی بنیاد پر مالکانہ حق کا فیصلہ کریگی تو نرموہی اکھاڑہ کا کوئی حق ہی نہیں بنتا سوٹ داخل کرنے کا۔اسی درمیان نظام پاشا کی بحث کا اختتام ہوا جس کے بعد رام للا کے وکیل پرسارنن جمعیة علماءہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون، مسلم پرسنل لاءبورڈ کے وکلاء میناکشی اروڑا، شیکھر نافڈے اور نظام پاشا کی جانب سے کی جانے والی بحث کا جواب دینے کھڑ ے ہوئے عدالت میں بحث شروع کی جس پر ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ ایڈوکیٹ پرسارنن ہماری بحث کا جواب دینے کے بجائے کچھ اور ہی بحث کررہے ہیں جس پر پرسارنن نے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر دھون نے اپنے خود کے ذریعہ لکھے گئے آرٹیکل عدالت میں داخل کیے ہیں جس پر دھون نے سخت لہجے میں کہا کہ اگر فریق مخالف کو ان آرٹیکلوں پر اعتراض ہے تو عدالت انہیں اپنے ریکارڈ سے نکال سکتی ہے۔


ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ پرسارنن جو مثالیں دے رہے ہیں اس کا اس مقدمہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن جب ہم مثالیں دے رہے تھے اس وقت عدالت نے انہیں روکا تھا لہذا اب عدالت کو انہیں بھی روکنا چاہیے۔پرسارنن نے اپنی بحث آگے بڑھاتے ہو ئے کہا کہ Juristic Personality یعنی کہ قانونی شخصیت کو ہندو قانون کے مطابق دیکھنا چاہیے، روم قانون اور انگریزی قانون کا مطالعہ کرنا ضروری نہیں ہے، وقت کے ساتھ ہندو قانون بہت ترقی کرچکا ہے نیز متنازعہ مقام پر مورتی تھی یا نہیں یہ ضروری نہیں ہے بلکہ اس مقام سے ہندﺅں کی آستھا ہے اوریہی ضروری ہے۔ایڈوکیٹ پرسارنن نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ بھگوان کا کوئی روپ نہیں ہوتا لیکن ایک عبادت گذار کو بھگوان کا یقین ہو اس کے لئے مختلف طرح کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں البتہ کئی ایک مندروں میں بغیر کسی مورتی کے بھی پوجا کی جاتی ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ قانونی شخصیت یعنی کہ Juristic Perosonalityکا تعین اسی لحاظ سے کیا جاتا ہے کہ اس کے ماننے والے کیسے اسے قبول کرتے ہیں۔انہوں نے اس تعلق سے عدالت میں ماضی کے فیصلوں کی نظیر بھی پیش کی جہاں مورتی کو قانونی شخصیت مانا گیا ہے۔ پرسارنن نے مزید بتایا کہ ایسی قانونی شخصیت کو وہ تمام حقو ق دستیاب ہوتے ہیں جو ایک عام شخص کو ہوتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سوئم بھودوطرح کے ہوتے ہیں ایک تو مورتی کی شکل میں دوسرا جو خود پرکٹ ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ میرے یہاں زمین بھی سوئم بھوہوتی ہے، اور ضروری نہیں کہ بھگوان کی کوئی یقینی شکل ہولیکن عام لوگوں کو پوجاکرنے کےلئے ایک شکل کی ضرورت ہوتی ہے جس سے لوگوں کا دھیان مرکوز ہو، اسی درمیان رام للا ورجمان کے وکیل سی ایس ودیاناتھن نے عدالت کو بتایا کہ وہ سنی وقف بورڈ کی جانب سے مصالحت کی دوبارہ پہل کیے جانے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہ عدالت سے فیصلہ چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اس معاملے کی بحث اب آخری مقام پر پہنچ چکی ہے اور وہ چاہتے ہیں فریق اپنی بحث 18 اکتوبر تک ختم کردیں نیز اگر ضرورت پڑی تو عدالت سنیچر کو بھی سماعت کرسکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔