ایودھیا: دھرم سبھا سے پہلے ’دھرم یُدھ‘ کا اعلان، سوشل میڈیا پر اسلحوں کی نمائش

ایودھیا میں نہ صرف سوشل میڈیا پر اسلحوں کی نمائش ہو رہی ہے بلکہ ایودھیا میں جگہ جگہ بڑے اسکرین لگائے گئے ہیں جن پر رامائن نشر ہو رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے 1992 والا ماحول دوبارہ تیار ہو رہا ہے۔

Getty Images
Getty Images
user

قومی آوازبیورو

ایودھیا سے مسلمانوں کی ہجرت کے درمیان تاریخ خود کو دہراتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ شیو سینا سربراہ اُدھو ٹھاکرے کے پروگرام اور وی ایچ پی کی ’دھرم سبھا‘ سے پہلے جہاں ہندوتوا تنظیمیں کھلے عام ’دھرم یُدھ‘ کا اعلان کر رہی ہیں، وہیں وی ایچ پی اسے سازش بتا کر اپنا پلّہ جھاڑ رہی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ 1990 اور 1992 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اور اس بار بھی کچھ ویسی ہی فضا تیار کی جا رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 1992 کے وقت بھی ایک تنظیم’دھرم یُدھ‘ کا اعلان کرتی اور دوسری تنظیم اس سے پلّہ جھاڑ لیتی تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

اُدھو ٹھاکرے کے پروگرام کی تیاریوں میں لگے ایک شیو سینک نے اپنا نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ رام مندر تعمیر ہمارے لیے ’دھرم یُدھ‘ ہی ہے۔ اگر اس بار نہیں تو پھر کب؟ ناسک سے آئے اس شیو سینک پر ایودھیا اور فیض آباد (اب ایودھیا) میں پوسٹر بینر لگانے کی ذمہ داری تھی۔ کچھ اسی طرح کا اعلان آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم بجرنگ دل اور وی ایچ پی سے منسلک لوگ بھی کر رہے ہیں۔ ان تنظیموں سے جڑے لوگ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع پر کھلے عام اسلحوں کی تصویریں شیئر کر رہے ہیں لیکن تنظیموں کے ترجمان کہتے ہیں کہ اس طرح کے معاملوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی اشتعال انگیز پوسٹس تو سوشل میڈیا سے ڈیلیٹ کر دیئے گئے ہیں۔ گویا کہ سوشل میڈیا سے اشتعال بھی پھیلایا جا رہا ہے اور پھر اس پوسٹس کو ڈیلیٹ بھی کر دیا جاتا ہے تاکہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکے۔

جب اس تعلق سے وی ایچ پی کے ترجمان شرد شرما سے پوچھا گیا تو انھوں نے بھی ایسی کسی سرگرمی سے انکار کر دیا۔ شرد شرما نے اس کے لیے میڈیا کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ایودھیا میں مسلمانوں کے خوف اور ہجرت کے بارے میں بڑھا چڑھا کر خبریں دکھائی جا رہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’وی ایچ پی کی دھرم سبھا کا مقصد 85 فیصد ہندوؤں کے جذبات کا اظہار کرنا ہے، نہ کہ کسی کو ڈرانا یا دھمکانا۔‘‘ حالانکہ شیوسینکوں کی سرگرمیوں کے بارے میں جب شرد شرما سے پوچھا گیا تو انھوں نے خاموشی اختیار کر لی۔

لکھنؤ سے شائع ہونے والے ایک ہندی اخبار کے مدیر نے ’قومی آواز‘ کے نمائندہ کو بتایا کہ دراصل آر ایس ایس فیملی کے کام کرنے کا طریقہ یہی ہے۔ 1990 اور 1992 جیسا ماحول پھر سے تیا رہو رہا ہے۔ وہی طریقے اور ہتھکنڈے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’اس وقت ان لوگوں نے عدالت میں حلف نامہ دیا تھا کہ بابری مسجد کا انہدام نہیں ہوگا، لیکن اس بار تو ان کی حکومت ہے۔ حلف نامے کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘ حالانکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ مندر کی تعمیر، مسجد گرانے جتنا آسان نہیں ہے جیسا کہ شیو سینا کے لوگ دعویٰ کر رہے ہیں۔ مسجد بھلے ہی کچھ منٹوں میں گرا دی گئی ہو لیکن مندر کی بنیاد تیار کرنے میں بھی مہینوں کا وقت لگے گا۔

انھوں نے آگے کہا کہ ’’اگر آپ تجزیہ کریں تو سمجھ میں آئے گا کہ طریقہ کار وہی 1990 اور 1992 جیسا ہے۔ آر ایس ایس کی ایک تنظیم بیان دیتی ہے، دوسری تنظیم لوگوں کو اکٹھا کرتی ہے اور تیسری تنظیم اس بیان کی تردید کرتی ہے۔ آپ کو یہ سمجھنے میں بہت مشقت کرنی پڑے گی کہ کون سی تنظیم اصل میں ذمہ دار ہے۔ مثلاً، اگر مندر تعمیر کے بارے میں ہی بات کریں تو آر ایس ایس نے کبھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوال نہیں اٹھایا جب کہ وی ایچ پی اور بجرنگ دل اس کے خلاف پمفلٹ تقسیم کر رہی ہیں۔ بی جے پی موقع دیکھ کر صلح سمجھوتے کی بات کرتی ہے اور کبھی تلخ رخ اختیار کر لیتی ہے۔

ایودھیا میں نہ صرف سوشل میڈیا پر اسلحوں کی نمائش ہو رہی ہے بلکہ ایودھیا میں جگہ جگہ بڑے ٹی وی اسکرین لگائے گئے ہیں جن پر رامائن سیریل دکھایا جا رہا ہے۔ ایودھیا کے رہنے والے او پی سنگھ نے بتایا کہ ٹھیک ایسا ہی 1990 اور 1992 میں کیا گیا تھا۔ پورے ملک میں وی ایچ پی اور آر ایس ایس کے لوگوں نے اس وقت ویڈیو کیسٹس کے ذریعہ موبائل وین پر رامائن دکھا کر لوگوں کو مسجد گرانے کے لیے منظم کیا تھا۔

او پی سنگھ کہتے ہیں کہ ’’گزشتہ تین دنوں سے ایودھیا کے الگ الگ چوراہوں پر ایسی 10 بڑی اسکرین لگائی گئی ہیں جن میں رامائن کے جوشیلے مناظر دکھائے جا رہے ہیں۔ اس میں زیادہ تر مناظر جنگ سے متعلق ہیں۔ شام ہوتے ہی ان اسکرین پر جنگ کے مناظر چلنے لگتے ہیں۔ لوگ زمین پر بھکتی کے جذبہ کے ساتھ یہ سین دیکھتے ہیں۔ لاشعور میں وہ کہیں نہ کہیں رام کے نام پر ’دھرم یُدھ‘ کے لیے تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔‘‘

حالانکہ دھرم سبھا کے مدنظر اتر پردیش پولس کا دعویٰ ہے کہ سیکورٹی کے پورے انتظام کیے گئے ہیں اور بھیڑ کو متنازعہ جگہ پر نہیں جانے دیا جائے گا۔ لیکن ایودھیا کے رہنے والے مسلم طبقہ کے لوگ اس دعوے پر یقین نہیں کر پا رہے ہیں۔ سماجی کارکن وسیم نے بتایا کہ ہجرت کی خبریں آنے کے بعد سیکورٹی کے انتظام کچھ زیادہ کیے گئے ہیں، لیکن یہ اب بھی کم ہیں۔ جس طرح سے شہر میں باہری لوگوں کی بھیڑ بڑھ رہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے پختہ انتظام کیے جانے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔