ایودھیا تنازعہ: غیر متنازعہ اراضی مودی حکومت کے حوالے نہیں کرنا چاہتی نِرموہی اکھاڑا

نرموہی اکھاڑا نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی ہے جس میں غیر متنازعہ زمین چھوڑنے سے متعلق مودی حکومت کی گزارش کو مسترد کر دیا ہے۔ نرموہی اکھاڑا کا کہنا ہے کہ اس سے کئی مندروں کو نقصان پہنچے گا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ میں نرموہی اکھاڑا نے مودی حکومت کی اس گزارش کے خلاف عرضی داخل کی ہے جس میں حکومت نے عدالت سے رام جنم بھومی-بابری مسجد کی غیر متنازعہ زمین کو لوٹانے کی گزارش کی تھی۔ اکھاڑا کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کے ذریعہ تحصیل اراضی سے وہ مندر تباہ ہو جائیں گے جن کا انتظام نرموہی اکھاڑا دیکھتی ہے۔ اس لیے اکھاڑا نے عدالت سے متنازعہ زمین پر فیصلہ کرنے کے لیے کہا ہے۔

قابل غور ہے کہ 29 جنوری کو مودی حکومت نے ایودھیا میں متنازعہ رام جنم بھومی-بابری مسجد کے پاس قبضہ کی گئی 67 ایکڑ زمین کو اس کے اصل مالکان کو لوٹانے کی اجازت مانگنے کے لیے عدالت پہنچی تھی۔ مودی حکومت نے ایودھیا معاملہ پر سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ متنازعہ زمین کے علاوہ باقی زمین لوٹائی جائے۔ حکومت نے عرضی میں کہا تھا کہ تنازعہ 0.313 ایکڑ زمین پر ہے، اس لیے متنازعہ زمین کو چھوڑ کر باقی زمین کو لوٹایا جائے اور اس پر جاری موجودہ قبضہ ہٹایا جائے۔ حکومت نے اپنی عرضی میں 67 ایکڑ زمین میں سے کچھ حصہ سونپنے کی عرضی دی ہے۔

غور طلب ہے کہ سال 1993 میں مرکزی حکومت نے ایودھیا حصول اراضی ایکٹ کے تحت متنازعہ مقام اور آس پاس کی زمین کا قبضہ لیا تھا۔ اس کے علاوہ پہلے سے زمین تنازعہ کو لے کر داخل سبھی عرضیوں کو ختم کر دیا گیا تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ نے اسماعیل فاروقی ججمنٹ میں 1994 میں تمام دعویداری والی عرضیوں کو بحال کر دیا تھا اور زمین مرکزی حکومت کے پاس ہی رکھنے کو کہا تھا اور ہدایت دی تھی کہ جس کے حق میں عدالت کا فیصلہ آتا ہے، زمین اسے دی جائے گی۔

واضح رہے کہ تقریباً 7 دہائی قدیم بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ کی اہم سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے۔ 30 ستمبر 2010 کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سبھی تینوں فریق نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ جس کے بعد سے ہی یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

ہائی کورٹ کی تین رکنی بنچ نے 30 ستمبر 2010 کو 2:1 کی اکثریت والے فیصلے میں کہا تھا کہ 2.77 ایکڑ زمین کو تینوں فریق- سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑا اور رام للا میں برابر برابر تقسیم کر دیا جائے۔ اس فیصلے کو کسی بھی فریق نے نہیں مانا اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج پیش کیا، سپریم کورٹ نے 9 مئی 2011 کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر روک لگا دی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Apr 2019, 1:09 PM