ایودھیا کیس میں ایک دَرجن ہندو دعویدار، رام مندر تعمیر کا فیصلہ آیا تو کسے ملے گی زمین؟

ایودھیا کی متنازعہ زمین پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے اور آئندہ دو دنوں میں دلیلیں پوری ہونے والی ہیں۔ لیکن بڑا سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ اگر فیصلہ ہندو فریق کے حق میں آیا تو اس کی ملکیت کسے ملے گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ایشلن میتھیو

سپریم کورٹ میں ایودھیا تنازعہ پر سماعت کا آج آخری دن ہے اور چیف جسٹس رنجن گگوئی نے 16 اکتوبر کو سماعت شروع ہونے سے پہلے یہ واضح بھی کر دیا کہ 5 بجے تک سب کچھ مکمل ہو جائے گا۔ بہر حال، منگل (15 اکتوبر) کو سنی وقف بورڈ کے وکیل راجیو دھون نے کہا کہ پوری سماعت کے دوران مسلم فریق ایک ہی ہے جب کہ ہندو فریق میں اب تک 12 پارٹیاں سامنے آ چکی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں شروع میں صرف نرموہی اکھاڑا ہی فریق تھا۔

دھون نے اس دلیل کو سامنے رکھتے ہوئے سوال کیا کہ ایودھیا تنازعہ میں اب چونکہ اتنے زیادہ فریق ہیں کہ ایسے میں کون سا فریق زمین کی ملکیت حاصل کرنا چاہتا ہے اور ان میں سے کون سا فریق مندر تعمیر کرنا چاہتا ہے؟ عدالت میں یہ بھی بتایا گیا کہ وی ایچ پی کے ذریعہ بنائے گئے رام جنم بھومی نیاس نے ساری متنازعہ زمین پر ملکیت کا دعویٰ پیش کیا ہے جب کہ نیاس تو صرف ایک ایسے معاملے میں دفاعی فریق ہے جو کافی بعد میں داخل کیا گیا تھا۔ اس کیس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ انھیں ’استھان جنم بھومی‘ پر دیو پوجا کرنے کی اجازت دی جائے۔


دوسرا کیس 5 دسمبر 1950 کو پرمہنس رام چندر داس نے داخل کیا تھا۔ اس کیس میں ملکیت کی اجازت طلب کی گئی تھی۔ لیکن پرمہنس چندر داس کا انتقال ہو گیا ہے اس لیے اس کیس کی سماعت نہیں ہو رہی ہے۔ رام چندر داس دگمبر اکھاڑا کے رکن تھے اور لال کرشن اڈوانی اور کوئی دیگر کو اپنا معاون بتاتے تھے۔

تیسرا کیس نرموہی اکھاڑا کے مہنت رگھو ناتھ نے داخل کیا تھا، جس میں مندر مینجمنٹ دیکھنے والے میونسپل بورڈ کے چیئرمین پریہ دت رام کو ہٹا کر مندر مینجمنٹ کا ذمہ انھیں دینے کی اپیل کی گئی تھی۔ نرموہی اکھاڑا کا نیاس، آر ایس ایس یا وشو ہندو پریشد سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ساتھ ہی اکھاڑا معاملے میں دفاعی فریق کے طور پر نیاس کو شامل کرنے کے خلاف بھی رہا ہے۔


جب سنی سنٹرل وقف بورڈ نے دیکھا کہ ہندوؤں کی طرف سے ایک کے بعد ایک مقدمے داخل کیے جا رہے ہیں تو انھوں نے وِشارد کی اپیل کے خلاف معاملہ داخل کیا اور مسجد اور قبرستان کی زمین پر قبضے کے ساتھ ہی مورتیوں کو ہٹانے کی بھی اپیل کی۔ اس طرح ہندوؤں کی طرف سے داخل دو اور وقف بورڈ کی طرف سے داخل ایک مقدمہ تنازعہ کا ایک اہم کیس بن گیا۔

یہاں تک پورے معاملے میں آر ایس ایس یا وشو ہندو پریشد کا کوئی کردار نہیں تھا۔ لیکن 1989 میں ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ڈی این اگروال، جو وی ایچ پی کے نائب صدر تھے، انھوں نے کیس نمبر پانچ داخل کر متنازعہ اراضی کی ملکیت کا دعویٰ کیا اور پرانی عمارت کی جگہ نئی عمارت بنانے کی اجازت مانگی۔ اس کیس کے بعد سے آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد نے اس کیس میں اپنا کردار بنایا۔


ڈی این اگروال رام 1985 میں قائم رام جنم بھومی نیاس کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ دراصل اگروال کی عرضی میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ انھیں رام للا اور رام جنم بھومی کے دوست کے طور پر پیش ہونے کی اجازت دی جائے۔ اس طرح آر ایس ایس فیملی نے اراضی تنازعہ کو عقیدت کے معاملے میں بدلنے کی کوشش کی۔

رام جنم بھومی نیاس نے دعویٰ کیا کہ گرائی گئی بابری مسجد کے بغل کی جگہ کی ملکیت اس کے پاس ہے۔ لیکن دلچسپ ہے کہ نیاس کے پاس اس اراضی کی لیز ڈیڈ مارچ 1992 کی ہے جو کہ عدالت میں کیس داخل ہونے کے بہت بعد کا معاملہ ہے۔ جہاں بابری مسجد تھی، اس زمین پر رام جنم بھومی نیاس کے دعوے پر دوسرے ہندو فریق نے سوال اٹھایا۔ یہ ہندو فریق تھے نرموہی اکھاڑا اور ہندو مہاسبھا۔ لیکن سبھی ہندو فریقوں میں بھی کیس کو لے کر نااتفاقی ہے۔


نرموہی اکھاڑا خود کو اراضی کا اصل مالک بتاتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس م عاملے میں پہلا کیس 1885 میں داخل کیا تھا اور بابری مسجد کے باہری احاطہ میں مندر تعمیر کی اجازت مانگی تھی، لیکن اسے خارج کر دیا گیا تھا۔ کیس میں کہا گیا تھا کہ نرموہی اکھاڑا باہری احاطے میں رام چبوترے پر پوجا کرتا رہا ہے۔ لیکن وہ کبھی بھی اندرونی احاطے میں نہیں گئے۔ لیکن اب نرموہی اکھاڑا اندرونی احاطے پر بھی دعویٰ کر رہا ہے۔ دراصل نرموہی اکھاڑا پر بابری مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے مورتیاں رکھنے کے لیے مجرمانہ مقدمہ بھی 1949 میں ہوا تھا۔ 22 دسمبر 1949 کو داخل کیس کے بعد ضلع مجسٹریٹ نے اس جگہ حکومت کے ماتحت کر دیا تھا۔ لیکن نرموہی اکھاڑے میں ہی دو گروپ ہیں، جو خود کو اصلی دعویدار ظاہر کرتے ہیں۔ ایک ہے رام چبوترے پر پوجا منعقد کرنے والا پنچ رامانی نرموہی اکھاڑا، ایودھیا اور دوسرا ہے ایودھیا کے ایک دیگر مندر ہنومان گدی پر قابض نرموہی نروانی۔

نرموہی اکھاڑا، ایودھیا کی قیادت کرنے والے دینیندر داس صاف کہتے ہیں کہ اس معاملے میں اصلی فریق وہی ہیں۔ جب کہ نرموہی نروانی کےسربراہ دھرم داس ہیں، جن پر متنازعہ مقام سے 1982 میں دستاویز چرانے کا الزام ہے۔ لیکن انھوں نے بھی کیس نمبر 5 داخل کر دیا ہے۔ اور دھون نے انہی کی موجودگی کے خلاف دلیل دی ہے کہ یہ تو صرف کیس نمبر پانچ میں دفاعی فریق ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل ایک اور اکھاڑا ہے، دگمبر اکھاڑا جو نرموہی اکھاڑے پر قبضے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، لیکن نرموہی اکھاڑا اس سے انکار کرتا ہے۔ عدالت میں دگمبر اکھاڑے کی جانب سے کوئی عرضی نہیں دی گئی ہے۔


اُدھر اکھل بھارت ہندو مہاسبھا میں بھی آپسی جدوجہد جاری ہے اور ان میں سے کچھ کو آر ایس ایس نے فروغ دیا ہے تاکہ رام جنم بھومی پر ان کے قبضے کا دعویٰ بنا رہے۔ کل ملا کر 6 گروپ ہیں جو خود کو ہندو مہاسبھا کا قائد بتاتے ہیں، لیکن ان میں سے صرف چار ہی ایودھیا اراضی تنازعہ میں عرضی دہندہ ہیں۔

پہلی عرضی دہندہ ہیں راج شری چودھری جو نیتا جی سبھاش چندر بوس کی پڑپوتی ہیں۔ ان کی طرف سے روی رنجن سنگھ عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اکھل بھارت ہندو مہاسبھا کی اصلی نمائندہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔


اس کے بعد چندر پرکاش کوشک ہیں، جو ہندو مہاسبھا کے قومی سربراہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ اپنی طرف سے خود ہی بحث کر رہے ہیں اور آر ایس ایس سے ان کی نزدیکیاں مانی جاتی ہیں۔ ہندو مہا سبھا کی طرف سے تیسرے عرضی دہندہ ہیں سوامی چکرپانی جن کے بی جے پی اور کانگریس دونوں سے اچھے رشتے مانے جاتے ہیں۔ چوتھے عرضی دہندہ ہیں بابا نند کشور مشرا جو خود کو اکھل بھارت ہندو مہاسبھا کا سربراہ بتاتے ہیں۔ وہ بی جے پی کے حامی ہیں اور سابق میں بابا رام دیو کے بھی حامی رہے ہیں۔

دراصل اکھل بھارت ہندو مہاسبھا کے صدر عہدہ کی دعویداری پر فیصلے کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ داخل کیا گیا تھا۔ سماعت کے دوران نند کشور مشرا کوئی دستاویز پیش نہیں کر پائے کہ وہ کوئی عہدیدار ہیں۔ اس کے علاوہ کئی اور جوابی دعوے بھی سامنے آ گئے، جس کے بعد ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ نہ تو چکرپانی اور نہ ہی کوشک کو مہاسبھا کا کوئی عہدیدار مانا جا سکتا ہے۔


بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ نرموہی اکھاڑے نے سپریم کورٹ میں رام للا کی طرف سے داخل عرضی کی مخالفت بھی یہ کہتے ہوئے کی تھی کہ وہ مندر کے خادم ہونے کے ناطے وہ ہی رام للا کے کیئر ٹیکر ہیں، نہ کہ رام جنم بھومی نیاس۔

ان سبھی عرضیوں کی بنیاد پر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے 2010 کو دیئے اپنے فیصلے میں ایودھیا کی متنازعہ 2.77 ایکڑ زمین کو تین برابر حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان میں سے سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑا اور رام للا وراجمان کے درمیان اراضی کی تقسیم کی گئی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Oct 2019, 1:15 PM