رام نومی پر جل اٹھا اورنگ آباد، پولس کا کردار مشتبہ

25 مارچ کو بہار کے اورنگ آباد میں رام نومی جلوس کے نام پر شرپسندوں نے مسلم علاقوں کے گلی محلوں میں خوب ہنگامہ کیا اور محض چند قدموں پر موجود پولس انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آصف سلیمان

رات کے تقریبا ًایک بجے ہیں اور بوڑھے، بچے اور خواتین کی آنکھوں سے نیند غائب ہے۔ چاروں طرف خوفناک سناٹا اور کسی اندیشہ سے لوگوں کا دل تیز تیز دھڑک رہا ہے۔ کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا۔ باہر کسی کی آہٹ ہوتی ہے تو سب لوگ اس کو بغور سننے اور آہٹ کا مقصد سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ درمیان میں پولس والوں کی پٹرولنگ گاڑی کی آوازیں آتی ہیں تو لوگ سہم کر ایک دوسرے کے بے حد قریب پہنچ جاتے ہیں۔ دن بھر کے طوفان کے بعد آئی اس قیامت کی رات کو کاٹنا اس گھر میں موجود سبھی کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں ہے۔

یہ نظارہ ہے اورنگ آباد شہر کے کلامی محلہ کے بیچ واقع ایک تین منزلہ مکان کا جہاں محلے کے 30-25 خاندانوں کے لوگ پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ایسا ہی نظارہ محلے کے کئی گھروں اور شہر کے دوسرے مسلم علاقوں کا بھی ہے۔ لوگ اپنے اپنے گھر چھوڑ کر محلے کے سب سے محفوظ نظر آ رہے گھروں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور محلوں کے باہر پولس کا سخت پہرا ہے۔ بہار پولس، سی آر پی ایف کی ٹکڑیاں زیادہ تر مسلم محلوں کے باہر مستعد کھڑی ہیں۔

رام نومی پر جل اٹھا اورنگ آباد، پولس کا کردار مشتبہ
اورنگ آباد میں ہنگامہ آرائی کرتے بجرنگ دل کے کارکنان

اسی طرح ایک گھر میں محلے کے 80-70 لوگوں کے ساتھ پناہ کیے ہوئے ٹیچر حسین کمال بتاتے ہیں کہ دن میں جو کچھ ہوا اس کے بعد رات میں کب کیا ہو جائے اس کا بھروسہ نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جس طرح شام کو جلوس کی شکل میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے محلے کے اندر گھس کر دہشت پھیلائی جس کے بعد پورے شہر کے مسلمانوں میں خوف کا عالم ہے۔ شر پسندوں کے ذریعہ مسجد پر پتھر بازی کی گئی، قبرستان میں گھس کر قبروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنا کر بم پھینکے گئے۔ حسین کمال پولس کے بارے میں پوچھے جانے پر کہتے ہیں کہ ’’اسی بات کا خوف ہے کہ پولس نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، اپنے گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہے۔ ایسے میں اگر پولس دوسرے فریق کو کھلی چھوٹ دے کر محلے میں گھسا دے تو ایک اور گجرات جیسا قتل عام ہونے میں وقت نہیں لگے گا۔ دن میں پولس انتظامیہ کا جو چہرہ دیکھنے کو ملا اس کے بعد اب ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

حسین کمال کا ڈر بے وجہ نہیں ہے۔ اتوار (25 مارچ) کو دوپہر سے دیر شام تک شہر میں جو کچھ ہوا اس میں پولس اور انتظامیہ کا جو کردار رہا اس کو دیکھتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں اس طرح کا خوف لازمی ہے۔ دراصل 25 مارچ کی شام شہر میں ایک طبقہ کے لوگوں نے رام نومی کا جلوس نکالا۔ جلوس صدر اسپتال سے ملحق بازار سے نکل کر کئی مسلم اکثریتی علاقوں سے ہوتے ہوئے شہر کے نواڈیہہ محلے میں پہنچ گیا۔ یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن اس کے بعد جلوس کے پیچھے پیچھے 300 سے 400 موٹر سائیکل سوار لوگ پیشانی پر بھگوا پٹی باندھے اور ہاتھوں میں تلوار لیے قابل اعتراض نعرہ لگاتے ہوئے نواڈیہہ محلے میں داخل ہوئے۔ محلے کے بالکل بیچ میں پہنچ کر یہ لوگ قابل اعتراض نعرے لگانے لگے۔ اس پر وہاں کے کچھ مقامی لوگوں کے ذریعہ اعتراض ظاہر کیا گیا جس کے بعد ماحول گرم ہو گیا اور دونوں فریق کے درمیان خوب پتھر بازی ہوئی۔

رام نومی پر جل اٹھا اورنگ آباد، پولس کا کردار مشتبہ
اورنگ آباد میں ہنگامہ آرائی کرتے بجرنگ دل کے کارکنان

اس درمیان بھیڑ میں شامل کچھ لوگوں نے اقلیتی طبقہ کے لوگوں اور گھروں کو نشانہ بناتے ہوئے کئی بم بھی پھینکے، لیکن دیسی بم ہونے کی وجہ سے کسی کو خاص نقصان نہیں پہنچا۔ اس کے بعد جلوس میں شامل لوگوں نے محلے کے باہر واقع عنایت مسجد پر بھی روڑے بازی کر دی۔ وہاں پر دوسرے طبقہ کی طرف سے ہوئی مخالفت کے جواب میں جلوس میں شامل سینکڑوں کی تعداد میں لوگ پاس کے کلامی محلہ میں گھس گئے۔ ان لوگوں نے وہاں موجود لوگوں کو دوڑا دوڑا کر پتھروں اور ہاکی اسٹک سے مارنا شروع کر دیا۔ بے قابو بھیڑ محلے میں رہنے والے مقامی لیڈر نورالہدیٰ خان کے گھر میں جا گھسے اور ان کے ساتھ مار پیٹ کی۔ اس درمیان جلوس کا ایک حصہ نواڈیہہ محلے سے آگے ادری ندی کے پاس واقع مسلمانوں کی عیدگاہ اور قبرستان میں جا گھسا اور وہاں بھی زبردست توڑ پھوڑ کی گئی۔ پرتشدد بھیڑ نے قبرستان میں کئی قبروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعہ کو بھی انجام دیا۔

اس دوران شہر کے صدر اسپتال سے ملحق بازار میں چن چن کر مسلمانوں کی دکانوں کو نذرِ آتش کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ شہر کا مرکز مانے جانے والے رمیش چوک سے لے کر بازار ہوتے ہوئے سرائے روڈ کے آگے واقع سبزی منڈی اور پھل بازار تک چن چن کر مسلمانوں کی دکانوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ اس دوران پورے واقعہ کا حملہ آوروں کے ذریعہ ویڈیو بھی بنایا جاتا رہا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔

رام نومی پر جل اٹھا اورنگ آباد، پولس کا کردار مشتبہ
اورنگ آباد میں ہنگامہ آرائی کرتے بجرنگ دل کے کارکنان اور پولس اہلکاران بے بس

اتوار کے اس پورے واقعہ کے دوران سب سے خاص بات جو رہی وہ ہے پورے واقعہ کے دوران ضلع کی پولس کا غائب رہنا۔ آپ کو بتا دیں کہ صدر اسپتال واقع بازار جہاں آتش زدگی ہوئی تھی، وہاں سے ایک سمت میں محض 250 میٹر کی دوری پر اورنگ آباد ٹاؤن تھانہ موجود ہے اور دوسری سمت میں اس سے بھی کم دوری پر ضلع کے ایس پی اور ڈی ایم کا دفتر اور رہائش گاہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود شر پسند عناصر کے ذریعہ گھنٹوں تک شہر میں ہنگامہ آرائی ہوتی رہی۔ پولس اور انتظامیہ کا کہیں کوئی پتہ نہیں تھا۔

شہر کے معزز لوگوں میں شمار کیے جانے والے دانت کے سینئر داکٹر حسنین وارثی کا گھر بھی نواڈیہہ محلے سے ملحق ہے۔ انھوں نے بتایا ’’پتھر بازی اور مار پیٹ کے واقعہ ہوتے ہی اس کی خبر شہر بھر میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ میں اپنے کلینک سے بھاگتا ہوا جیسے تیسے گھر پہنچا۔ اس وقت تک معاملہ بڑھ کر بم باری تک پہنچ گیا تھا۔ میں نے فوراً مقامی پولس کو فون کیا لیکن گھنٹوں گزر جانے کے بعد بھی پولس نہیں پہنچی۔ اس دوران بار بار فون کرنے پر یہی جواب ملتا تھاکہ فورس نکل چکی ہے، پہنچ رہی ہوگی۔ لیکن فورس سب کچھ ختم ہو جانے کے بعد پہنچی۔

ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے فساد برپا کرنے والوں نے اپنا کام پورا کرنے کے بعد پولس کو علاقے میں آنے کی اجازت دی ہو۔‘‘ شہر کے کئی علاقوں میں پتھر بازی ہونے، بم چلنے اور سینکڑوں دکانوں میں توڑ پھوڑ اور آتش زدگی کے بعد جب ہنگامہ مچانے والے اپنا کام کر لوٹ گئے تب جا کر پولس انتظامیہ نیند سے بیدار ہوئی۔ نیند ٹوٹنے کے ساتھ انتظامیہ نے شہر میں دفعہ 144 لگانے کا اعلان کر دیا اور مسلم اکثریتی علاقوں میں زبردست پولس دستہ تعینات کر کے بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لے لیا۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ حادثہ ہو جانے کے بعد حرکت میں آئی پولس نے زیادہ تر مسلمان لڑکوں کو ان کے گھروں سے اٹھا لیا ہے۔ حالانکہ پولس کا دعویٰ ہے کہ پولس کارروائی کے بعد حالات سنبھلے اور اس دوران کئی پولس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ حالانکہ حقیقت کا پتہ شہر کے بچہ بچہ کو ہے اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی تصویریں اور ویڈیو بھی معاملے سے پردہ اٹھا رہی ہیں۔

اورنگ آباد شہر کے سینئر وکیل اور سی پی آئی لیڈر تیروبھون سنگھ نے اس پورے واقعہ کے لیے ریاست کی نتیش حکومت اور اس میں شامل بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’گزشتہ کئی دنوں سے لگاتار ریاست کے کئی ضلعوں میں فساد پیدا کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ ایک دن قبل یعنی ہفتہ کے روز سیوان میں دو فرقہ کے درمیان تشدد کا واقعہ پیش آیا، اس سے پہلے بھاگلپور کے ناتھ نگر میں فرقہ وارانہ فساد ہوا، جس میں مرکزی وزیر اور بی جے پی لیڈر اشونی چوبے کے بیٹے ارجت شاشوت کا کردار سامنے آیا ہے۔ اس سے پہلے ارریہ اور دربھنگہ میں بھی اسی طرح کی کوششیں کی گئیں۔ اس پر نتیش کمار نے میڈیا کے ذریعہ لوگوں سے ہاتھ جوڑتے ہوئے امن اور خیر سگالی قائم رکھنے کی اپیل کی تھی۔ اس کے باوجود ان کی حکومت اور انتظامیہ نے جان بوجھ کر اورنگ آباد کا ماحول خراب ہونے دیا۔‘‘

اورنگ آباد ضلع سے تعلق رکھنے والے پٹنہ ہائی کورٹ کے سینئر وکیل محمد غیاث الدین خان نظامی نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی اور نتیش کمار مل کر منصوبہ بند طریقے سے ریاست کا ماحول خراب کرنے میں مصروف ہیں۔ انھوں نے کہا ’’آخر کیسے انتظامیہ نے بغیر مناسب پولس دستہ کی تعیناتی کے اتنی بڑی تعداد میں مذہبی جلوس کو نکلنے دیا۔ اس طرح کے مظاہروں کی انتظامیہ کو پہلے سے جانکاری ہوتی ہے اور انتظامیہ ہی ایسے جلوسوں کا راستہ متعین کرتا ہے۔ ایسے میں کس طرح ضلع انتظامیہ رام نومی جلوس کو مسلم اکثریتی علاقے سے ہو کر گزرنے کی اجازت دے سکتا ہے، جب کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘‘ انھوں نے کہا کہ جلوس کے ساتھ تعینات پولس والوں کی اور ضلع کے دیگر سینئر افسران کا تشدد کے دوران کیا کردار تھا، اس کی غیر جانبدارانہ جانچ ہونی چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ریاست میں حال کے واقعات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بہار میں بھی گجرات کی طرح کوئی بڑا تجربہ کرنے کی تیاری ہے، لیکن بہار کے لوگ امن پسند اور خیرسگالی میں بھروسہ کرنے والے لوگ ہیں جو ایسی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

اس درمیان شہر میں بڑے پیمانے پر تعینات پولس کے سخت پہرے کے بیچ امن قائم ہے، لیکن گھروں میں قید اور نیند سے کوسوں دور لوگوں کے دماغوں میں ایک خوفناک سناٹا پسرا ہوا ہے۔ پورے شہر میں خاموشی ہے، لیکن گھروں کے اندر لوگ دروازے پر کان لگائے بیٹھے ہیں۔ اب لوگوں کو صبح ہونے کا انتظار ہے کہ نئے دن کا سورج کس طرح کی خبر لے کر آتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Mar 2018, 1:44 PM