بہار میں صحافی کو گولی ماری گئی، حملہ آور گرفتار

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

پٹنہ: ابھی کرناٹک کی معروف صحافی گوری لنکیش کا قتل ہوئے دو دن ہی گزرے ہیں کہ بہار کے ضلع ارول میں مشہور صحافی پنکج مشرا کو گولی مار دیا گیا جو اس وقت زخمی حالت میں اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہندی روزنامہ راشٹریہ سہارا کے صحافی پنکج مشرا جب اپنے گاؤں جا رہے تھے اسی وقت باشی علاقے میں موٹر سائیکل پر سوار دو لوگوں نے ان پر گولی چلا دی۔ خبروں کے مطابق دو گولی ان کی پیٹھ میں لگی ہے۔ وہاں پر موجود مقامی لوگوں نے زخمی حالت میں انھیں پٹنہ میڈیکل کالج میں داخل کرایا۔ پولس نے حالانکہ دونوں حملہ آوروں کی شناخت کر لی ہے لیکن صرف ایک کی گرفتاری عمل میں آ سکی ہے۔ پولس نے بتایا کہ حملہ آوروں کا نام امبیکا مہتو اور کندن یادو ہے جس میں کندن یادو کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ امبیکا مہتو کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

حادثہ کے پیچھے پوشیدہ اسباب کے سلسلے میں پولس کا کہنا ہے کہ یہ لوٹ پاٹ کا معاملہ ہو سکتا ہے کیونکہ پنکج مشرا بینک سے دو لاکھ روپے نکال کر اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے۔ لیکن زخمی پنکج مشرا نے اسپتال میں جو بیان دیا ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاملہ لوٹ پاٹ کا نہیں ہے بلکہ یہ جان سے مارنے کی کوشش تھی۔ انھوں نے بتایا کہ دونوں ہی ملزم مقامی باشندہ ہیں اور کرتھا اسمبلی سیٹ سے جنتا دل یو ممبر اسمبلی ستیہ دیو سنگھ سے قربت رکھتے ہیں۔ پنکج مشرا نے بتایا کہ ان حملہ آوروں میں سے ایک نندن ستیہ دیو سنگھ کے اسسٹنٹ کا بیٹا ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ کندن کے خلاف اخبار میں کئی رپورٹ بھی شائع کر چکے ہیں جس کی وجہ سے انھیں نشانہ بنایا گیا ہے۔

پنکج مشرا اس خطرے سے باہر ضرور بتائے جا رہے ہیں لیکن جس طرح سیاسی اور کسی خاص نظریہ سے تعلق رکھنے والے لوگ صحافیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، اس سے صحافت پر خطرات کے بادل منڈلاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ چونکہ سیاست میں غیر تعلیم یافتہ اور شر پسند عناصر کی شراکت داری میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے سیاست کے اصول بھی طاق پر رکھ دیے گئے ہیں۔ پنکج مشرا جیسے صحافی پر حملہ اس لیے بھی افسوسناک ہے کیونکہ وہ صرف صحافی نہیں ہیں بلکہ عوام کی خدمت کے لیے ایک مرکز بھی چلاتے ہیں جس میں دیہی لوگوں کو سرکاری منصوبوں سے متعلق سبھی طرح کے فارم بھرنے میں مدد کی جاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 07 Sep 2017, 7:56 PM