جموں میں حالات بے قابو، کشمیری سرکاری ملازمین پر فوج کی موجودگی میں حملے

پلوامہ حملے کے بعد جموں کے بگڑے حالات ابھی تک بے قابو ہیں، کرفیو اور فوجی نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کے باوجود فسادی لگاتار کشمیر سے وابستہ ملازمین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آشوتوش شرما

جموں و کشمیر کے پلوامہ میں ملی ٹینٹوں کی طرف سے کئے گئے خود کش حملے میں 49 سی آر پی ایف اہلکاروں کی ہلاکت کی مخالفت میں جمعہ کے روز جموں بند کے دوران بھڑکی تشدد ہفتہ کو بھی بے قابو رہی۔ جمعہ کے روز فسادیوں نے جموں شہیر کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ فسادیوں نے 50 سے زیادہ نجی گاڑیوں، دکانوں، رہائشی مکانوں کو نقصان پہنچایا اور درجنوں گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔

نیشنل ہیرالڈ سے فون پر گفتگو کے دوران سکریٹریٹ ملازمین یونین کے صدر غلام رسول میر نے کہا کہ انہوں نے گورنر ستیہ پال ملک سے ان کی سلامتی یقینی بنائے جانے کی گہار لگائی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جموں میں اس وقت 7 سے 8 ہزار تک کشمیری خاندان موجود ہیں جو دربار مؤ (موسم سرما میں سکریٹریٹ کو گرمائی راجدھانی سری نگر سے سرمائی راجدھانی جموں منتقل کرنے کا عمل) کے وقت جموں آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر کو ان خاندان کی بحفاظت کشمیر واپسی کا انتظام کرنا چاہئے۔

غلام رسول میر نے کہا، ’’پولس نے کل شام سے ہر مرتبہ فون پر تسلی دی لیکن فسادی شہر کے جانی پور علاقہ میں ہماری گاڑیوں کو نذر آتش کر رہے ہیں، ہمارے گھروں پر سنگ باری کر رہے ہیں۔ شرپسندوں نے ہمارے گھروں کو بھی نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ہفتہ کی صبح نئے سرے سے حملوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔

انہوں نے سکیورٹی اہلکار پر اس دوران خاموش تماشائی بنے رہنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا، ’’شرپسند سرکاری ملازمین کے رہائشی کمپلیکس میں گھس آئے اور ہماری املاک کو خرد برد کیا۔ ہمارے بچے اور خاندان کے افراد خوف میں ہیں۔ ہمارے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہمار سرکاری مشینری کا اہم حصہ ہیں لیکن پھر بھی حکومت ہماری سلامتی کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ پلوامہ خودکش حملہ کے بعد سکریٹریٹ میں پہلے ہی ملازمین کی تعداد کم ہو گئی تھی۔ کشمیر سے آنے والے ملازمین بہت زیادہ خوف میں ہیں۔ کئی ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو چوٹیں بھی آئی ہیں، زخمی ہونے والوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔

غلام رسول کا کہنا ہے، ’’ہم پر حملہ کرنے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ ہم سرکاری کام کاج چلانے میں مدد کرنے والے لوگ ہیں۔ سیاسی وجوہات اور فائدہ کے لئے ہمارے معصوم خاندانوں کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟

ادھر جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ شکیل احمد کا کہنا ہے، ’’جموں میں شرپسندوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس سے لوگوں میں زبردست خوف ہے۔ گوجر نگر، جانی پور، تالاب کھٹیکان وغیرہ علاقوں میں حملے ہو رہے ہیں، گاڑیوں کو پھونکا جا رہا ہے۔ جموں یونیورسٹی اور دوسرے کالجوں کے ہاسٹلوں میں رہنے والے طلبا میں خوف ہے۔ جموں کے حالات کے پیش نظر ان میں عدم تحفظ کا احساس ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اقلیتوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے اقدام اٹھانے چاہئیں۔ انہوں نے اقلیتی آبادی والے علاقوں میں اضافی سلامتی نفریاں مہیا کرانے کی گورنر سے اپیل کی ہے۔

غورطلب ہے کہ جمعہ کو فسادیوں نے جموں شہر کے گوجر نگر، شہیدی چوک، جانی پور، پرانی منڈی، پکا ڈنگا، رہاڑی، ریزیڈنسی روڈ، نیوں پلاٹ، گمٹ، پریم نگر اور نروال میں حملے کئے تھے۔ شہر میں تشدد بھڑکنے کے بعد فوج نے 9 حفاظتی نفریوں کو تعینات کیا ہے۔

دریں اثنا جموں-سرینگر ہائی وے پر بھی آنے جانے والے ٹرانسپورٹروں پر حملے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ادھر سری نگر میں تمام ٹرانسپورٹروں اور ڈرائیوروں نے پریس انکلیو علاقہ میں جمع ہو کر انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی۔ ان کا الزام ہے کہ انتظامیہ ہندو اکثریتی علاقوں میں ان کی حفاظت نہیں کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں اس وقت صدر راج نافظ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔