دہلی پولیس کا ڈاکٹر ظفر الاسلام سے تھانہ چلنے کے لئے کہنا قانوناً غلط: ورندا گروور

ظفر الاسلام کی وکیل ورندا گروور نے پولیس سے کہا کہ ’’اگر ڈاکٹر ظفر الاسلام سے پوچھ گچھ کرنی ہے تو یہ آپ صرف ان کی رہائش پر ہی کر سکتے ہیں، انہیں تھانہ جانے کے لئے نہیں کہہ سکتے‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: دہلی پولیس کے عہدیدار بدھ کے روز دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ پولیس نے 30 اپریل کو ظفرالاسلام کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کیا تھا۔

دہلی پولیس نے ان کی رہائش کا دورہ اس ایف آئی آر کے حوالے سے تھا جسے پولیس نے وسنت کنج کے رہائشی کی شکایت کی بنیاد پر تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے (بغاوت) اور 153 اے (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینا اور ہم آہنگی کو بگاڑنے کی نیت سے اقدام کرنا) کے تحت دائر کی گئی ہے۔

دی کوئنٹ کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے ظفر الاسلام خان سے تھانے چلنے کو کہا تھا، جس پر ان کی وکیل ورندا گروور نے اعتراض ظاہر کرتے ہوئے اسے قانون کے خلاف قرار دیا ہے۔


ظفر الاسلام کی پیروی کرنے والی سپریم کورٹ کی وکیل ورندا گروور نے دہلی پولیس کو مخاطب کرنے ہوئے بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان سینئر سٹیزن ہیں ان کی عمر 72 سال ہے۔ وہ ضعیفی سے متعلق کئی بیماریوں میں مبتلا ہے اور کووڈ-19 ان کے لئے خطرناک ہے۔ سی آر پی سی کی دفعہ 160 کے مطابق 65 سال سے زیادہ عمر کے کسی شخص کو پولیس جانچ کا پوچھ گچھ کے لئے اس کی رہائش کے علاوہ تھانہ کا کسی دوسرے مقام پر طلب نہیں کر سکتی۔ آپ کو اگر قانون کے مطابق ڈاکٹر ظفر الاسلام سے پوچھ گچھ کرنی ہے یا ان سے کوئی سوالات پوچھنے ہیں یہ آپ صرف ان کی رہائش پر ہی کر سکتے ہیں، آپ انہیں تھانہ جانے کے لئے نہیں کہہ سکتے۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’ڈاکٹر ظفر الاسلام کی وکیل ہونے کے لئے ناطہ میں کہنا چاہتی ہوں کہ آپ انہیں پولیس اسٹیشن جانے کے لئے نہیں کہہ سکے۔ یہ سی آر پی سی کی خلاف ورزی ہوگی اور میرے موکل کے خلاف یہ پولیس کاررائی غیر قانونی ہوگی۔‘‘

ڈاکٹر ظفرالاسلام کے خلاف غداری کے مقدمہ کے حوالہ سے ورندا گروور نے کہا یہ مقدمہ عدالت میں کھڑا نہیں ہو پائے گا اور پولیس کو منہ کی کھانی ہوگی۔


سماجی کارکن نوید حامد نے بھی اس معاملہ پر دہلی پولیس کی مذمت کی۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا، ’’بیجا غداری کے مقدملہ کے حوالہ سے دہلی پولیس کا ڈاکٹر ظفر اسلام کی رہائش پر عین افطار سے قبل چھاپہ مارنا قابل مذمت ہے۔ دہلی پولیس کے متعصب رویہ کا ایک بار پھر پردہ فاش ہو گیا۔ یہ دہلی کے مسلم مخالف فسادات کے اصل مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے سے خوفزدہ ہے جبکہ مسلمانوں کو ہراساں کر رہی ہے۔‘‘

نوید حامد نے اپنے ٹوئٹ کے آخر میں ہیش ٹیگ ’انڈین مسلمس ان ڈینجر‘ (ہندوستانی مسلمان خطرے میں) کا بھی استعمال کیا۔

واضح رہے کہ اپنی پوسٹ میں ظفر الاسلام نے ہندوستانی مسلمانوں پر ہو رہے حملہ کا نوٹس لینے پر عرب ممالک کا شکریہ ادا کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر ہندوستانی مسلمان عرب دنیا سے شکایت کرنے لگا تو یہاں طوفان آ جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 06 May 2020, 9:40 PM