پہلو خان معاملہ: کیا پولس ملزمان کو بچانے کی کوشش میں ہے؟

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: راجستھان کے الور میں مبینہ گئورکشکوں کے تشدد کا شکار ہوئے 55 سالہ پہلو خان کے قتل کے معاملہ میں متعدد ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جو حیران کر دینے والے ہیں ۔ سول سوسائٹیز سے وابستہ کچھ افراد نے اس حوالہ سے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس کی اور پہلو خان معاملہ میں ہو رہی تفتیش پر سوال اٹھائے۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے پولس کی جانچ خامیوں کو شمار کراتے ہوئے کہا کہ ان خامیوں کے حوالہ سے عدالت کو رجوع کیا جائے گا۔

آزاد صحافی اجیت ساہی ، مشہور وکیل پرشانت بھوشن اور اندرا جے سنگھ وغیرہ نے ایک پریس کانفرنس میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی طرف سے جانچ میں پائی گئی خامیاں۔

  • ایف آئی آر کے مطابق پولس کوپہلو خان کے قتل کی جانکاری 2 اپریل کو صبح 4.24 منٹ پر ہوئی۔ چانچ کرنے پر پایا گیا کہ واقعہ یکم اپریل شام 7 بجے کا ہے۔ جائے وقوعہ سے پولس اسٹیشن کا فاصلہ محض 2 کلو میٹر ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق پولس کو تقریباً 9 گھنٹے بعد واقعہ کی اطلاع حاصل ہوئی۔
  • ایف آئی آر میں درج کیا گیا ہے کہ پہلو خان کا بیان رات 11 بج کر 40 منٹ پر ریکارڈ کر لیا گیا تھا۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ جب پولس کو اطلاع ہی اگلی صبح چار بجے حاصل ہوئی تو پھر بیان ساڑھے چار گھنٹے قبل کیسے درج کر لیا ۔
  • حملے کے آدھے گھنٹے بعد پولس پہلو خان اور ان کے بیٹے کو اسپتال لے کر گئی۔ جبکہ ایف آئی آر میں کسی چشم دید پولس اہلکار کا نام نہیں ہے۔ انہیں کیس میں گواہ تک نہیں بنایا گیا۔
  • قبل از مرگ دئیے گئے اپنے بیان میں پہلو خان نے 6 افراد کے ناموں کا تذکرہ کیا تھا۔ پہلو خان کے بیان کے مطابق ان پر حملہ کرنے والے کہہ رہے تھے کہ وہ بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے ارکان ہیں۔ ایسے میں سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جب پہلوخان اس علاقے کا رہائشی ہی نہیں تھا تو اسے انہیں 6 لوگوں کے نام یاد کس طرح رہ گئے۔ آخر کس نے اسے یہ نام دئیے تھے؟
  • پولس رپورٹ میں کہا گیا کہ پہلو خان کے قبل از مرگ بیان کی جانچ کی گئی اور یہ پایا گیا کہ 6 ملزمان اس وقت گئو شالہ میں موجود تھے۔
  • تمام 6 ملزمان نے جانچ میں پولس کو یہ بتایا کہ جائے وقوعہ پر ان کے موبائل فون موجود نہیں تھے اور پولس نے ان کے اسی بیان کو ثبوت مان لیا۔
  • تمام ملزمان 5 مہینے تک فرار رہے اور اچانک پولس کے پاس آکر اپنے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے یہ انکشاف کرتے ہیں کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود ہی نہیں تھے۔ یہ بات بھی پولس کی جانچ پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔
  • بہروڑ کے تین سرکاری ڈاکٹروں نے بیان دیا کہ پہلو خان کی موت ان زخموں کی وجہ سے ہوئی جو اسے حملہ کے دوران لگے تھے ۔
  • پولس نے سرکاری ڈاکٹروں کی رپورٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک پرائیویٹ اسپتال ( جس کے مالک بی جے پی کے رہنما اور مرکزی وزیرہیں )کے ڈاکٹروں کی بات سچ مانی۔
  • بی جے پی رہنما کے اسپتال کے ڈاکٹروں نے پولس کو بتایا کہ جب پہلو خان اسپتال پہنچا ، تو اس کی حالت ٹھیک تھی۔ اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا اور سینے میں درد کی شکایت تھی۔ اس بنیاد پر ڈاکٹروں نے پہلو خان کی موت کی وجہ حرکت قلب کا بند ہو جانا قرار دے دیا۔

سماجی تنظیموں نے پولس کی جانچ اور واردات کے حوالہ سے بنائی گئی کہانی میں تمام خامیاں سامنے لاکر الزام لگایا کہ معاملہ کی جانچ کا رخ موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب ان تمام حقائق کو وہ عدالت کے سامنے رکھ کر انصاف کا مطالبہ کریں گے۔

کیا ہے معاملہ؟

ہریانہ کے ضلع نوح (میوات ) کے رہنے والے پہلو خان ایک ڈیری چلاتے تھے۔ وہ یکم اپریل 2017 کو بھینس خریدنے کے لئے جے پور گئے لیکن زیادہ دودھ ملنے کی امید پر گائے خرید لی۔ انہیں الور میں ہندو تنظیموں سے وابستہ اور مبینہ گئو رکشکوں نے گھیر لیا اور ان کی لنچنگ کی۔ واردات میں پہلو خان کو شدید زخم لگے، ان کے علاوہ ان کے بیٹے سمیت 5 لوگ بھی زخمی ہو گئے ۔ علاج کے دوران اسپتال میں پہلو خان زخموں کی تاب نہ لا سکے اور چل بسے ۔

اس معاملہ میں 6 لوگوں کے خلاف ایف آئی درج کرائی گئی تھی۔ جس کے بعد ستمبرماہ میں سی بی سی آئی ڈی نے ان تمام 6 ملزمان کو کلین چٹ دیتے ہوئے یہ دلیل دی کہ کسی مقامی فرد نے جان بوجھ کر ان لوگوں کے نام ایف آئی آر میں لکھوا ئے ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں کو گرفتار کرنے سے پورا کیس کمزور ہو جاتا کیوں کہ یہ لوگ موقع واردات پر موجود نہیں تھے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Oct 2017, 4:15 PM