اسلامک سینٹر کوئی کلب نہیں، اسے ’تھنک ٹینک‘ کا مرکز ہونا چاہیے: عارف محمد خان

دہلی کے انڈیا اسلامک کلچر سینٹر کے انتخابات میں صدارتی امیدوار عارف محمد خان نے کہا ’’میں 12 سال قبل سیاست کو خیر باد کہہ چکا ہوں، میرا علیحدہ سے منشور نہیں ہے بلکہ سینٹر کا آئین ہی میرا منشور ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

’’انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے آئین یا میمو رینڈم آف ایسوسی ایشن کے مطابق جو سینٹر کے اغراض و مقاصد تھے ان پر آج تک عمل نہیں ہوا، ہم سینٹر کو کلب بنانے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں لیکن اس کے قیام کے اصلی مقصد سے ہم بہت دور رہے‘‘ ان خیالات کا اظہار سابق مرکزی وزیر اور اسلامک سینٹر کے انتخابات میں صدارتی امیدوار عارف محمد خان نے کیا۔

اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے عارف محمد خان نے کہا ’’وہ اس کے لئے کسی اور کو نہیں بلکہ خود کو ذمہ دار مانتے ہیں کیونکہ انہوں نے ابھی تک سینٹر کا آئین ہی نہیں دیکھا تھا اور آئین میں جو سینٹر کے اغراض و مقاصد درج ہیں ان سے واقف ہی نہیں تھا ‘‘۔ انہوں نے کہا اسلامک سینٹر کی صدارت کے لئے انتخاب لڑنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ ان اغراض و مقاصد کو عملی جامع پہنانے کی کوشش کی جائے۔

اغراض و مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سینٹر کوئی کلب نہیں ہےبلکہ یہ ایک ’تھنک ٹینک‘ کا مرکز ہونا چاہیے۔ انڈیا اسلامک سینٹر کے اغراض و مقاصد تھے کہ اسلام کے تعلق سے موجود غلط فہمیوں کو دور کیا جائے، ایک مہذب سماج کی تشکیل دی جائے اور ملک میں اسلام کی شبیہ کو حقیقی حیثیت میں پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لئے تحقیق کا کام ہونا چاہیے، سیمینار اور سمپوزیم ہونے چاہیے، سینٹر کو اپنا نیوز لیٹر اور جرنل شائع کرنا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ ایسی کسی بھی تنظیم میں سیاست دانوں کی موجودگی کے خلاف ہیں اور انہوں نے بارہ سال قبل سیاست کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا کوئی علیحدہ سے منشور نہیں ہے ان کا منشور سینٹر کا آئین ہے۔

عارف محمد خان نے کہا کہ اگر ان کو یہ امانت سونپی گئی تو وہ اس میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لانا چاہیں گے جس میں یہ طے ہونا چاہیے کہ ایک شخص کتنے ٹرم کے لئے صدر بن سکتا ہے۔ ارکان کے بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ ہونی چاہیے، خواتین کے لئے کوئی باقاعدہ جگہ ہونی چاہیے۔ توسیع ہونی چاہیے اور ریاستوں میں اسلامک سینٹر ضرور ہونا چاہیے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر ان کو اس امانت کی ذمہ داری دی گئی تو وسائل کی کوئی کمی نہیں ہو نے دیں گے اور جتنا دعوی مخالف گروپ کر رہا ہے اس سے دو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ وسائل وہ لا سکتے ہیں۔

عارف محمد خان نے ان الزامات کا بھی جواب دیا جس پر لوگ اکثر سوال کرتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ایک جانب اسلامک سینٹر کی صدرت کا انتخاب لڑ رہے ہیں اور دوسری جانب علماء سے ان کے اختلافات جگ ظاہر ہیں، تو ایسے میں وہ کیسے کام کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ جس ایشو پر اختلافات تھے یعنی طلاق ثلاثہ، اب علماء کرام بھی ان کی اس وقت کی رائے سے متفق ہیں اور وہ خود اس جانب بیداری مہم چلا رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جو لوگ اس وقت ان کے مخالف تھے وہی لوگ یعنی سلمان خورشید، کمال فاروقی، محمد ادیب اور انیس درانی آج چاپتے ہیں کہ وہ اس انتخاب کے لئے ان کے امیدوار ہوں۔ اس لئے اب یہ سوال بے معنی ٰہیں۔ میں ان شخصیات کا مشکور ہوں کہ انہوں نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری حمایت کی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہ کیا کچھ قووتیں انہیں استعمال کر رہی ہیں تو اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو لوگ انہیں جانتے ہیں وہ اس بات سے خوب اچھی طرح واقف ہیں کہ ان کو کوئی استعمال نہیں کر سکتا ہے اور اگر کر سکتا تو پھر وہ بڑے بڑے عہدوں کی پیش کش کو نہیں ٹھکراتے۔

انہوں نے کہا کہ وہ سابق نائب صدر جمہوریہ مرحوم ہدایت اللہ صاحب جنہو ں نے اسلامک سینٹر کی زمین کے لئے جدو جہد کی، حکیم عبد الحمید جنہوں نے اسلامک سینٹر کے لئے رقم کا انتظام کیا، موسی رضا جنہوں نے اسلامک سینٹر کے لئے رقم جمع کی اور سراج الدین قریشی جنہوں نے ایک لمبے وقت تک سینٹر کے کام کاج کو دیکھا ان کے احسان مند ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Dec 2018, 6:09 PM
/* */