’کیا حکومت میں بیٹھے لوگ خود کو مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر امبیڈکر سے بڑا سمجھنے لگے ہیں‘، پرینکا گاندھی کا تلخ سوال
’وندے ماترم‘ پر بحث کے دوران پرینکا نے سوال کیا کہ کیا حکومت میں بیٹھے لوگ اتنے متکبر ہو گئے ہیں کہ خود کو مہاتما گاندھی، ڈاکٹر امبیڈکر، ڈاکٹر راجندر پرساد جیسی عظیم ہستیوں سے بھی بڑا سمجھنے لگے ہیں؟

لوک سبھا میں آج ’وندے ماترم‘ پر بحث کے دوران کانگریس رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے برسراقتدار طبقہ کو زبردست انداز میں نشانے پر لیا۔ انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کا نام تو نہیں لیا، لیکن کئی مواقع پر آج ایوان میں وزیر اعظم کے ذریعہ دیے گئے بیان کی طرف اشارہ کر جوابی حملہ کیا۔ خاص طور سے ’وندے ماترم‘ کے حذف کردہ الفاظ سے متعلق وزیر اعظم مودی نے جو بیان آج دیا، اس پر کانگریس رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ’’ہمارے قومی گیت اور قومی ترانہ دونوں کا انتخاب اور تقرری میں سب سے بڑا کردار گرو دیو رویندرناتھ ٹیگور کا تھا۔ اسے آئین ساز اسمبلی نے بھی منظوری دی۔ اس پر سوال اٹھانا نہ صرف ہماری تحریک آزادی کے پروانوں اور عظیم ہستیوں کی بے عزتی ہے، بلکہ پوری آئین ساز اسمبلی کی بھی بے عزتی ہے۔‘‘
پرینکا گاندھی نے اپنی تقریر کے دوران برسراقتدار طبقہ کے سامنے ایک انتہائی تلخ سوال بھی رکھا، جسے بعد میں انھوں نے اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر بھی شیئر کیا ہے۔ انھوں ایوان زیریں میں موجود برسراقتدار طبقہ کے لیڈران سے پوچھا کہ ’’کیا آج حکومت میں بیٹھے لوگ اتنے متکبر ہو گئے ہیں کہ وہ خود کو مہاتما گاندھی، نیتاجی سبھاش چندر بوس، ڈاکٹر امبیڈکر، ڈاکٹر راجندر پرساد جیسی عظیم ہستیوں سے بھی بڑا سمجھنے لگے ہیں؟‘‘ اس دوران پرینکا گاندھی نے ’وندے ماترم‘ کی کرونولوجی بھی پیش کی، جو اس طرح ہے:
1875 میں بنکم چندر چٹوپادھیائے جی نے اس گیت کے پہلے 2 مصرعے لکھے، جو آج ہمارا قومی گیت ہے۔
1882 میں 7 سال بعد بنکم چندر چٹوپادھیائے جی کا آنند مٹھ ناول شائع ہوا اور اس میں یہی گیت شائع کیا اور اس میں 4 مصرعے جوڑے دیے گئے۔
1896 میں کانگریس کے اجلاس میں گرودیو رویندرناتھ ٹیگو جی نے یہ گیت گایا۔
1905 میں بنگال کی تقسیم کے خلاف تحریک کے وقت ’وندے ماترم‘ عوام کے اتحاد کی اپیل بن کر گلی گلی سے اٹھا اور رویندرناتھ ٹیگور جیسے عظیم مجاہد آزادی اس گیت کو خود گاتے ہوئے بنگال کی سڑکوں پر اترے۔
طلبا سے لے کر کسان تک، کاروباری سے لے کر وکیلوں تک، ہر کسی نے یہ گیت گایا۔ اس گیت کو سن کر برطانوی حکومت کانپتی تھی۔
ہمارے ملک کے باشندے اس گیت کو سن کر برطانوی حکومت کے خلاف سچائی اور عدم تشدد کے اخلاقی ہتھیاروں کو لے کر شہید ہونے کی تیاری کرتے تھے۔ یہ گیت مادر وطن کے لیے مر مٹنے کے جذبہ کو بیدار کرتا ہے۔ یہ ہے اس گیت کی طاقت، یہ ہے اس گیت کا ملک سے رشتہ۔
1930 کے وقت جب ملک میں فرقہ وارانہ سیاست ابھری، تب یہ گیت تنازعہ کا شکار ہونے لگا۔
1937 میں نیتاجی سبھاش چندر بوس، کلکتہ میں ہونے والے کانگریس کے اجلاس کا انعقاد کر رہے تھے۔
مذکورہ بالا تاریخی حقائق پیش کرنے کے بعد پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’’مودی جی نے ایوان میں ایک خط کا ذکر کیا، جس میں انھوں نے بتایا کہ 20 اکتوبر کو نہرو جی نے نیتا جی کو ایک خط لکھا تھا۔ لیکن 17 اکتوبر کو لکھے گئے خط کا ذکر وزیر اعظم نے نہیں کیا، جو نیتاجی سبھاش چندر بوس نے پنڈت جواہر لال نہرو جی کو لکھا تھا۔‘‘ وہ آگے کہتی ہیں کہ ’’نیتا جی نے خط میں لکھا تھا– میرے عزیز جواہر، ’وندے ماترم‘ کے حوالے سے کہنا چاہوں گا کہ ہم اس پر کلکتہ (اب کولکاتا) میں بات کریں گے، اور اگر تم اسے ورکنگ کمیٹی میں پیش کرو، تو وہاں بھی اس مسئلہ پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔ میں نے ڈاکٹر ٹیگور کو لکھا ہے کہ وہ اس معاملے پر تم سے گفتگو کریں، جب تم شانتی نکیتن جاؤ۔ براہِ کرم جب تم شانتی نکیتن جاؤ تو ان سے بات کرنا مت بھولنا۔‘‘ پرینکا بتاتی ہیں کہ یہ خط 17 اکتوبر کو لکھا گیا تھا، اور پھر 20 اکتوبر کو نہرو جی نے اس کا جواب لکھا تھا۔ پی ایم مودی نے اس جواب کی ایک سطر یہاں سنائی، لیکن باقی باتیں جو نہرو جی نے لکھی تھیں، وہ اس طرح ہیں ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وندے ماترم کے خلاف موجودہ شور اور ہنگامہ بڑی حد تک فرقہ پرستوں کی تیار کردہ ہے۔ ہم خواہ کچھ بھی کریں، فرقہ پرست جذبات کو خوش کرنے کے لیے ہم خود کو نہیں جھکا سکتے۔ لیکن جہاں حقیقی شکایات موجود ہوں، انہیں دور کرنے کے لیے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب میں 25 تاریخ کی صبح کولکاتا پہنچوں گا۔ اس سے مجھے ڈاکٹر ٹیگور کے ساتھ ساتھ دوسرے دوستوں سے ملنے کا بھی وقت مل جائے گا۔‘‘
پرینکا گاندھی بتاتی ہیں کہ بعد میں نہرو جی کولکاتا جاتے ہیں اور گرودیو رویندرناتھ ٹیگو سے ملاقات کرتے ہیں۔ اس کے اگلے ہی دن گرودیو جی ایک خط لکھتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’جو 2 مصرعے ہمیشہ گائے جاتے تھے، ان کی اہمیت اتنی گہری تھی کہ اس حصے کو نظم کے بقیہ حصے اور کتاب کے ان حصوں سے الگ کرنے میں انھیں کوئی مشکل نہیں تھی۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’تحریک آزادی میں ہمیشہ سے وہی 2 مصرعے ہی گائے جاتے تھے اور ان کو گاتے ہوئے قربانی دینے والے سینکڑوں شہیدوں کے احترام کے لیے انھیں ایسے ہی گانا مناسب رہے گا۔‘‘ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ ’’بعد میں جوڑے گئے مصرعے کا فرقہ وارانہ معنی نکالا جا سکتا ہے، اور اس وقت کے ماحول میں ان کا استعمال نامناسب ہوگا۔‘‘
پرینکا گاندھی لوک سبھا میں اس تعلق سے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’بعد میں 28 اکتوبر 1937 میں کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے اپنی تجویز میں ’وندے ماترم‘ کو قومی گیت بنانے کا اعلان کیا۔ انہی 2 مصرعوں پر ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں مہاتما گاندھی جی، نیتاجی سبھاش چندر بوس جی، پنڈت نہرو جی، آچاریہ نریندر دیو جی، سردار پٹیل جی، گرودیو رویندرناتھ ٹیگور جی نے اتفاق ظاہر کیا۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’’ہندوستان کی آزادی کے بعد جب اس گیت کے انہی 2 مصرعوں کو 1950 میں ڈاکٹر راجندر پرساد جی نے آئینی کمیٹی میں ہندوستان کا قومی گیت اعلان کیا، امبیڈکر جی سمیت تب بھی تقریباً یہی عظیم ہستیاں وہاں موجود تھیں۔ بی جے پی کے ساتھیوں کے لیڈر شیاما پرساد مکھرجی بھی موجود تھے۔ وہاں بھی کسی نے کوئی اعتراض ظاہر نہیں کیا۔‘‘
کانگریس رکن پارلیمنٹ نے اپنی بات کو مضبوطی کے ساتھ رکھتے ہوئے کہا کہ ’’آج ہم اپنے قومی گیت پر بحث کر رہے ہیں، لیکن ہمارا قومی ترانہ بھی نظم کا ہی ایک حصہ ہے اور ان دونوں (قومی گیت اور قومی ترانہ) کے جز کو منتخب کرنے میں سب سے بڑا کردار گرودیو رویندرناتھ ٹیگور جی کا تھا۔‘‘وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’’وندے ماترم کی اس شکل پر سوال اٹھانا، جسے آئین ساز اسمبلی نے منظور کیا، نہ صرف ان عظیم ہستیوں کی بے عزتی ہے جنھوں نے اپنی عظیم دانش مندی سے یہ فیصلہ لیا، بلکہ یہ ایک آئین مخالف منشا کو بھی ظاہر کرتا ہے۔‘‘