گزشتہ چار سالوں میں دہلی کے 8000 بچے لاپتہ، پولس کارروائی پر اٹھ رہی انگلی

اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو چار سالوں میں 27356 بچے دہلی سے لاپتہ ہوئے جن میں سے 19596 بچے مل گئے۔ گویا کہ تقریباً 8 ہزار بچے ابھی تک لاپتہ ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اندر وششٹھ

گزشتہ تقریباً چار سال میں ملک کی راجدھانی دہلی سے تقریباً 8 ہزار بچے غائب ہیں۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو چار سالوں میں 27356 بچے دہلی سے لاپتہ ہوئے جن میں سے 19596 بچے مل گئے۔ گویا کہ تقریباً 8 ہزار بچے ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ان آٹھ ہزار بچوں کے لاپتہ ہونے سے پولس کے کردار اور ان کی حکمت عملی پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔ لاپتہ بچوں کے والدین پر کیا گزر رہی ہوگی اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔

سال 2018 میں نومبر تک 6053 بچوں کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ دہلی پولس نے درج کی۔ ان میں سے 3706 بچے مل گئے ہیں، یعنی 2347 بچوں کو پولس برآمد نہیں کر پائی۔ راجیہ سبھا میں وزیر مملکت برائے داخلہ ہنس راج گنگا رام اہیر نے اس سلسلے میں تفصیل پیش کرتے ہوئے بتایا کہ دہلی سے سال 2015 میں 7928، سال 2016 میں 6921، سال 2017 میں 6454 بچے لاپتہ ہو گئے۔ ان میں سے سال 2015 میں 6390، سال 2016 میں 5109 اور سال 2017 میں 4391 بچے دریافت کر لیے گئے۔

وزیر مملکت برائے داخلہ نے بتایا کہ لاپتہ بچوں کی تلاش کے لیے پولس نے کئی قدم اٹھائے ہیں۔ لاپتہ بچوں سے متعلق پولس اہلکاروں کی ڈیوٹی کے بارے میں انھیں مستقل احکام میں بھی بتایا گیا ہے۔ انسداد انسانی اسمگلنگ یونٹ کے ذریعہ ایسے معاملوں کی جانچ کی رفتار کے تجزیہ کے لیے رینج کے ایڈیشنل پولس کمشنروں کے ذریعہ ہر مہینے میٹنگ بھی کی جاتی ہے۔

رکن پارلیمنٹ انل اگروال کے ذریعہ پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ نے راجیہ سبھا میں یہ تفصیلی جانکاری پیش کی۔ بہر حال، سچائی یہی ہے کہ لاپتہ ہونے والا بچہ رسوخ دار اور امیر فیملی سے تعلق رکھتا ہے تو پولس اسے تلاش کرنے میں دن رات ایک کر دیتی ہے لیکن بچہ غریب اور کمزور طبقہ سے ہوتا ہے تو پولس میں وہ تیزی نظر نہیں آتی۔ ایسی صورت میں گھر والے خود اپنے بچوں کی تلاش میں جی جان لگا دیتے ہیں۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ کئی بار بچے کی تلاش میں جانے کے لیے پولس گاڑی کا انتظام بھی شکایت دہندہ سے ہی کرواتی ہے۔ پولس اگر حساس اور سنجیدہ کوشش کرے تو ہزاروں بچے اس طرح لاپتہ نہ رہیں۔

قابل ذکر ہے کہ بچوں کو اغوا کر کے فروخت کرنے والے انسانی اسمگلروں کے گروہ ملک بھر میں سرگرم ہیں۔ ایسے بچوں سے گروہ بھیک منگوانے کا دھندا کراتے ہیں۔ بچے جنسی استحصال کے شکار بھی ہوتے ہیں۔ جسمانی کاروبار کے دھندے میں بھی ایسے بچوں کو دھکیل دیا جاتا ہے۔ زراعت یا دیگر کاموں میں ایسے بچوں کو بندھوا مزدور بنا کر رکھا جاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔