بہار: ادبا و شعرا کے مرکز ’سبزی باغ‘ میں لگاتار نویں دن سی اے اے مخالف مظاہرہ جاری

جس طرح شاہین باغ (دہلی) کا دھرنا عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، اسی طرح اب سبزی باغ کا دھرنا بھی عالمی توجہ کا مرکز بنتا جارہاہے ۔ عالمی میڈیا نے اسے اپنی خبروں کی زینت بنانا شروع کر دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

پٹنہ: شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پٹنہ کے سبزی باغ میں لگاتار نویں دن مظاہرہ جاری رہا۔ پٹنہ کا قلب کہاجانے والا سبزی باغ جو کہ ادباءو شعرا ءاور سیاست دانوں کا مسکن بھی ہے، وہاں بچہ ، بوڑھا ، جوان ، تعلیم یافتہ ، اسکالر ، وکلاءڈاکٹر ، انجینئر یعنی تمام طرح کے پیشے سے منسلک افراد اور تمام مذاہب کے لوگ اس دھرنے میں شامل ہیں ۔ یہ کسی ایک فرد یا کسی ایک جماعت کا دھرنا نہیں ہے بلکہ ہر کوئی دھرنے سے اپنی باتیں رکھتا ہے اور اپنے جذبات کو حکومت ہند اور انتظامیہ تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایسے ریاست میں مختلف جگہوں پر بھی دھرنا شروع ہے جیسے پھلواری شریف ، عالم گنج ، پٹنہ سیٹی ، مظفر پور ، ماڑی پوری ، دربھنگہ قلعہ گھاٹ اور لال باغ ، گیا کے شانتی باغ سمیت ریاست کے مختلف اضلاع میں بھی دھرنا ومظاہرے جاری ہیں۔

بہار: ادبا و شعرا کے مرکز ’سبزی باغ‘ میں لگاتار نویں دن سی اے اے مخالف مظاہرہ جاری

یو ں شاہین باغ دہلی کا دھرنا عالمی توجہ کا مرکز ہے ہی لیکن اب سبزی باغ کا دھرنا بھی عالمی توجہ کا مرکز بنتا جارہاہے ۔ عالمی میڈیا نے بھی اسے اپنی خبروں کی زینت بنانا شروع کر دیا۔ دھرنے کے مقام پر موجود سماجی کارکن قمر الہدی اسلامی جو سپول سے اس دھرنا میں شریک ہونے آئے ہیں انہوں نے ہمارے نمائندہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس دھرنے میں اس لئے آئے ہیں کہ یہ ہمارا آئینی دینی ملی قومی جمہوری فریضہ بنتا ہے ۔ آج جمہوریت پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں اور آج ملک کے جو عظیم ادارے ہیں ان پر شبخون مارنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ ایسے وقت میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ہم ان تمام غیر جمہوری کاموں کی کھل کر مخالفت کریں اور ایوان حکومت تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کریں یہ ہمارا آئینی ، دینی ، ملی ، قومی ، جمہوری فریضہ ہے ۔ ہم اپنے اس جمہوری فریضہ سے کبھی دستبردار نہیں ہوسکتے ہیں۔


قمر الہدی ٰ نے کہاکہ ہم آج دو دنوں سے اس دھرنے میں شریک ہیں اور یہاں کے لوگوں کا جوش وجذبہ قابل دید ہے ۔ پر امن مظاہرہ ہے اور لوگ اپنے کام وکاج بھی کر رہے ہیں اور دھرنے میں بھی شریک ہیں ۔دھرنا منتظمین لوگوں کا خاص خیا ل رکھ رہے ہیں۔ ہم مرکزی حکومت سے صرف یہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس غیر جمہوری اور غیرآئینی قانون سی اے اے ، این آرسی ، این پی آر کو واپس لے لے اور ہماری ان ماﺅں اور بہنوں بچوں کی باتوں کو سن لے یہی ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے ۔

دھرنے پر موجود ابوالحسن نے اپنے شاعرانہ انداز میں کہاکہ ”جب گلستاں کو خون کی ضرورت پڑی تو سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی۔ پھر بھی کہتے ہیں یہ اہل چمن یہ چمن ہمارا ہے تمہارا نہیں“ ہمارے آباﺅ اجداد کی قربانیوں سے یہ ملک آزاد ہوا ہمارے اسلاف نے اس ملک کیلئے لاکھوں نفوس کی قربانیاں دی ہیں جس کے بعد یہ ملک آزاد ہوا اور ہمیں آزادی کی نعمت حاصل ہوئی ہے ۔ اس چمن کوہم نے اور ہمارے آباﺅ اجداد نے خون پسینے سے سینچاہے لیکن آج موجودہ حکومت ہمارے حقوق چھیننے کے درپے ہیں اور ہمارے خلاف طرح طرح کے سازشیں رچی جارہی ہے ۔ جسے ہم کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ اپنی لڑائی جمہوری اور آئینی طریقے سے لڑتے رہیں گے اور ہم اپنی باتوں کو حکومت وقت تک پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔


ابوالحسن نے کہاکہ آپ کو یاد ہوگا کہ یہ علماءصادقپور کی سرزمین ہے جہاں کے ہزاروں علماءنے جنگ آزدی میں قربانی پیش کی ہے تب ہمیں آزادی ملی ہے۔ ہندوستان کے سب سے پہلے وزیر اعظم پنڈٹ نہرو نے علمائے صادقبور کی قربانیوں کے بارے میں ایک مرتبہ حضرت مولانا عبد الخبیر ؒ سے کہا تھاکہ حضرت ” جنگ آزادی میں اگر تمام حریت پسندوں کی قربانیوں کو ایک پلڑے میں رکھ دیاجائے اور علماءصادقپور کی قربانیوں کو ایک پلڑے میں تو علماءصادقپور کی قربانیوں کا پلڑا بھاری پڑے گا“ ان تمام قربانیوں کے باوجود ہماری باتوں کو نہ سنا جانا یہ بد ملک کے لئے بد نصیبی ہے ۔ آج ملک کا کسان ، نوجوان ، مرد ، بوڑھے بچے ، خواتین سب پریشان ہیں اور حکومت اپنے میں ہی مگن ہے ۔ ہماری باتوں کو سننے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ لیکن ہم بھی بضد ہیں کہ ہم اپنی باتوں کو سنا کر رہیں گے ۔

ابو الحسن نے کہاکہ سی اے اے قانون ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے کے خلاف ہے سیکولر جو ہندوستان کا ایک بنیادی کیریکٹر ہے اس کے متصادم ہے یہ قانون اور ہندوستان کی اتحاد و سالمیت کیلئے بھی یہ قانون خطرہ ہے اس لئے ہم اس قانون کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ہم سی اے اے ، این آر سی ، این پی آر کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان ظالمانہ قوانین کو واپس لے کر شہریوں کو امن سکون سے جینے دے ۔ آج لوگوں کا امن و سکون غارت ہوچکا ہے ۔ رپورٹیں آرہی ہیں کہ لوگوں میں اس قانون کی وجہ سے نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوگئیں ہیں ۔ہمارے ملک ہندوستان کو عالمی طور پر بھی اس قانون کی وجہ سے رسوائیوں کاسامنا کرنا پڑرہاہے ۔ اس لئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ا س قانون کو واپس لے ۔


واضح رہے کہ سی اے اے این آر سی این پی آر کے خلاف د ھرنے پر روز کوئی نہ کوئی سیاسی شخصیت شریک ہورہی ہے ۔ اس سے قبل دھرنا میں جن سیاسی و سماجی لیڈران نے شرکت کی ہے ان میں سے سرفہرست ، سابق اسمبلی اسپیکر ادئے نارائن چودھری ، شیوانند تیواری ، سابق ایم پی علی انور ، سابق وزیر اطلاعات ونشریات اور تعلیم ورشن پٹیل ،سابق نائب وزیراعلیٰ او ر اپوزیشن لیڈر تیجسوی پرساد یادو جے این یو اسٹوڈینٹس یونین کے سابق صدر کنہیا کمار، مشہور اور نوجوان شاعرعمر ان پڑتاپ گڑھی ، نو عمر شاعر سفیان پڑتاپ گڑھی ، سابق وزیر کھیل شیو چندر رام ، سابق وزیر صحت تیج پڑتاپ یادو ، سابق کونسل کے رکن انوراحمد ، سابق میئر افضل امام ، سابق ایم پی پپو یادو ، بہار کے مشہور معالج ڈاکٹراحمد عبدالحئی وغیرہم سمیت سماجی ، سیاسی ، ادبی ، علمی ، شخصیتوں نے شرکت کی اور دھرنے کو کامیاب بنانے کی کوشش کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔