حیدرآباد: شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف ’ملین مارچ‘، انسانی سروں کا سمندر

برقعہ پوش خواتین بھی بڑی تعداد میں اس مارچ میں شامل تھیں جن کے ہاتھوں میں پلے کارڈس تھے، ان پلے کارڈس پر لکھا تھا کہ ہم ہندوستانیوں کے لئے ملازمتیں چاہئے، سی اے اے، این آر سی نہیں

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

حیدرآباد: شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شہر حیدرآباد کے لوور ٹینک بنڈ پر واقع دھرنا چوک پر ملین مارچ کا اہتمام کیاگیاجس میں مختلف سیاسی،سماجی،مذہبی،ملی،فلاحی تنظیموں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم دانشوروں،سیکولر اداروں،یونیورسٹیز کے طلبہ،انجمنوں،صحافیوں،دانشوروں نے شرکت کی۔

ملین مارچ کے موقع پر پولیس کا بھاری بندوبست دیکھا گیا۔ شہر حیدرآباد کے ساتھ ساتھ اضلاع سے کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کرتے ہوئے اس متنازعہ قانون کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی آواز اٹھائی۔ مختلف مسلم جماعتوں،تنظیموں کے ساتھ ساتھ سیکولر اور سماجی و عوامی تنظیموں نے اس مارچ کی اپیل کی تھی۔نظم وضبط کی برقراری کیلئے والنٹرس کو متعین کیاگیا تھا۔ اس جے اے سی میں 40 سے زائد عوامی تنظیمیں شامل ہیں۔

احتجاج میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے جو اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈس تھامے ہوئے تھے۔ان بچوں نے پلے کارڈس پر یو پی اور دہلی پولیس کے نامناسب رویہ کی مذمت کی۔ان بچوں نے اپنے سروں پر پٹیاں باندھی ہوئی تھیں اور ہاتھ میں پلے کارڈس تھے جس میں لکھاگیا تھا کہ دہلی پولیس نے ان کو مارا۔ایک پلے کارڈ میں لکھا گیا تھا کہ یہ پولیس نے بلکہ آرایس ایس کے غنڈے ہیں۔مظاہرین کے ہاتھوں میں قومی پرچم بھی تھے۔اس مارچ میں خواتین کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ تلنگانہ پرائیویٹ اسکولس ایکشن کمیٹی اور مختلف پرائیویٹ اسکولس فیڈریشن کے ذمہ داروں اور طلبہ بھی نے ملین مارچ کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملین مارچ سیاہ قوانین کے خلاف احتجاج ہے جو ہمارا دستوری حق ہے۔ اسکولس کے ذمہ داروں نے پُرامن احتجاج کرنے والے طلبہ پر دہلی میں پولیس مظالم، مقدمات کی مذمت کی اور خاطیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ گزشتہ 15تا20دن سے اس مارچ کی تیاری کی جارہی تھی۔جے اے سی نے نیکلس روڈ پر اس مارچ کی اجازت مانگی تھی تاہم اس کی اجازت نہیں دی گئی جس کے بعد دھرنا چوک پر یہ ملین مارچ کیا گیا۔


مومنٹ فار پیس اینڈ جسٹس تلنگانہ کے صدر جناب عزیز نے ملین مارچ کے موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اگرچہ کہ ایک ہزار افراد کی اجازت دی ہے تاہم یہ شہریت ترمیمی قانون کا مسئلہ عوامی تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے۔اس پر قابو پانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے،انہوں نے کہاکہ کمشنر پولیس سے خواہش کی گئی تھی کہ ایسے مقام کی نشاندہی کی جائے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ احتجاج کیلئے آسکیں۔کمشنر پولیس سے کہا گیا تھا کہ اس مسئلہ پر عوام کے جذبات اور احساسات کوروکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے،لوگوں کو دھرنا چوک پر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے،اسی لئے اس ملین مارچ کے لئے نیکلس روڈ کی بات کی گئی تھی تاہم کمشنر پولیس نے اس خیال کو مسترد کردیا۔

انہوں نے کہاکہ جب ایل بی نگر میں آرایس ایس کی جانب سے لاٹھیوں کا مارچ ہوسکتا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ آسکتے ہیں تو پھریہ کیسی حکومت ہے جو اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہے اور نیکلس روڈ پر احتجاج کی درخواست کو کمشنر پولیس نے مسترد کردیا۔انہوں نے کہاکہ چھتہ بازار اور پتھر گٹی کے تاجرین نے اس مسئلہ پر احتجاج کے لئے اپنی دکانات کو بند کردیا ہے،ساتھ ہی انجمن تاجرین چرم نے بھی اپنے کاروبار بند کرنے کا اعلان کیا۔انہوں نے ایک ہزار سے زائد افراد کو جمع ہونے کی اجازت نہ دیئے جانے سے متعلق کہا کہ دنیا کا کیا کوئی ایسا احتجاج ہے جس میں شامل ہونے والوں کی تعداد کا تعین پولیس کرتی ہے؟سماجی جہد کار الیاس شمسی نے میڈیا کو ملین مارچ کی ضرورت سے واقف کرواتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی طبقات نے مل کر اس قانون کے خلاف ملین مارچ نکالا ہے،سب نے احتجاج درج کروایاکیونکہ سر تولے نہیں جاتے گنے جاتے ہیں۔


سروں کوگننے کے لئے کھلے میدان میں کھلے آسمان کے نیچے آنے کی ضرورت ہوتی ہے۔انہوں نے کہاکہ اس ملین مارچ کے ذریعہ امیت شاہ اور مودی تک یہ پیام کو اس ملین مارچ کے ذریعہ پہنچانا چاہتے ہیں کہ ہم ہندوستان میں رہنے والے ہندوستانی زندہ ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ شہریت ترمیمی قانون نہ صرف مسلمان بلکہ ہر ایک ہندوستانی کے خلاف ہے۔اس کا اثر ایس سی بھائیوں پر ہوگا اور ان کا ریزرویشن کا حق چلاجائے گا۔انہوں نے کہاکہ قبائلیوں کے پاس دستاویزات نہیں ہوتے ہیں، ان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اورخاص بات یہ ہے کہ ہمارے ووٹ کا حق چلا جائے گا۔اس قانون کے ذریعہ ہندوراشٹربنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس مارچ میں کثیر تعداد میں وکلا نے بھی حصہ لیا۔

ان وکلا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ وکلا جے اے سی کے وکلا اس مارچ کی حمایت کرتے ہیں، ان وکلا نے کہاکہ امن پسند ہندوستانیوں کے کندھے سے کندھا ملانے کے لئے وکلا بڑی تعداد میں یہاں پہنچے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں کوئی بھی قانون مذہب کی بنیاد پرنہیں بننا چاہئے۔اس ملین مارچ کوکامیاب بنانے کے لئے اسکولس کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ گاڑیوں سے بھی استفادہ کیاگیا جن کے ذریعہ اضلاع سنگاریڈی،محبوب نگر اور عادل آباد سے لوگوں کو بڑی تعداد میں احتجاج کے مقام پر لایاگیا۔ بعض احتجاجیوں نے بندوبست پر متعین پولیس ملازمین کو پھول بھی پیش کئے۔


برقعہ پوش خواتین بھی بڑی تعداد میں اس مارچ میں شامل تھیں جن کے ہاتھوں میں پلے کارڈس تھے۔ان پلے کارڈس پر لکھا تھا کہ ہم ہندوستانیوں کو ملازمتیں چاہئے، سی اے اے،این آر سی نہیں۔ ایک پلے کارڈ پر لکھا گیا تھا ”تمہاری لاٹھی سے زیادہ تیز ہماری آواز ہے“۔پلے کارڈس ”سماج میں پھوٹ مت ڈالو،ہمارامطالبہ انصاف ہے“بھی دیکھے گئے۔اس ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے وحدت اسلامی کے ناظم مولانا نصیر الدین نے کہا کہ انگریزی حکومت کے خلاف مسلمانوں نے لڑائی لڑی،پھانسی کے پھندوں کو چوما،اپنی جانون کی قربانی دی،اس وقت آرایس ایس کے لوگ انگریزوں کی غلامی کررہے تھے۔آج ہم سے پوچھا جارہا ہے کہ تمہاراپیدائشی سرٹیفکیٹ کہاں ہے بتاو،ہم اس قانون کو نہیں مانتے۔انہوں نے نعرہ لگایا ”این آرسی،سی اے اے، بائیکاٹ“۔انہوں نے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون پر ہم خاموش نہیں رہیں گے۔انہوں نے کہاکہ اس احتجاج میں غیر مسلم بھائی بھی ساتھ دے رہے ہیں جس کیلئے ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ این آر سی سے متعلق کوئی بھی فارم کو پُر نہ کیاجائے۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم کو اپنا تعلق اللہ سے مضبوط بنانا چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔