کیرالہ میں نپاہ وائرس سے ایک اور شخص کی موت، لوگوں میں بڑھی تشویش، محکمہ صحت کا الرٹ جاری
پلکڑ ضلع کے منّار کاڈ واقع کمارم پتھور کے 58 سالہ ایک شخص ایک نجی اسپتال میں علاج کے دوران نپاہ وائرس سے موت ہو گئی ہے۔ منجیری میڈیکل کالج میں کی گئی ابتدائی جانچ میں نپاہ وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

نپاہ وائرس / Getty Images
کیرالہ میں نپاہ وائرس سے جڑی ایک اور موت کی خبر سامنے آئی ہے۔ اس سے ریاست بھر میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ پلکڑ ضلع کے منّار کاڈ واقع کمارم پتھور کے 58 سالہ ایک شخص کی پیرنتھل منّا کے ایک نجی اسپتال میں علاج کے دوران نپاہ وائرس سے موت ہو گئی۔
مرنے والے کو بخار آنے کے بعد منّار کاڈ کے ایک نجی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ بعد میں جمعہ کی شام سانس لینے میں زیادہ تکلیف کے بعد علامت نپاہ انفیکشن سے کافی ملتے جلتے تھے۔ اس لیے اسے علاج کے لیے آئسولیشن میں رکھا گیا تھا۔
منجیری میڈیکل کالج میں کی گئی ابتدائی جانچ میں نپاہ وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ آگے کی تصدیق کے لیے اس کے نمونے این آئی وی پونے بھیجے گئے ہیں۔ مریض کی ہفتہ کی شام 12 جولائی کو موت ہو گئی۔ صحت افسروں نے انفیکشن کے ذرائع کا پتہ لگانے کے لیے جانچ شروع کر دی ہے۔ رابطوں کا پتہ لگانے کا کام جاری ہے۔ صحت اہلکار ان لوگوں کی پہچان کر رہے ہیں جو مہلوک کے رابطے میں آئے ہوں گے۔
کیرالہ محکمہ صحت نے اس موت کے بعد الرٹ جاری کر دیا ہے۔ لوگوں سے مستعد رہنے کی اپیل کی ہے۔ علاقے میں نگرانی اور روک تھام کے اقدامات تیز کر دیے گئے ہیں۔ اس واقعہ نے ریاست میں نپاہ وائرس سے ممکنہ وبا کے خدشات کو پھر سے ہوا دے دی ہے جہاں حال کے برسوں میں اس وائرس کے پہلے بھی جان لیوا معاملے سامنے آئے ہیں۔
واضح رہے کہ نپاہ وائرس ایک زونوٹک وائرس ہے۔ یہ جانوروں سے انسانوں میں پھیل سکتا ہے۔ یہ خاص کر انفیکٹیڈ چمگادڑوں، خنزیروں یا پھر متاثرہ لوگوں کے رابطے میں آنے سے پھیلتا ہے۔ نپاہ وائرس کی علامت عام طور سے بخار سے ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ اس میں بخار، سر درد، پٹھوں میں درد، گلے میں خراش اور سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔ سنگین معاملوں میں یہ وائرس انسیفلائٹس کی وجہ بن سکتا ہے۔
نپاہ وائرس کا کوئی ٹیکہ یا مخصوص اینٹی وائرل علاج نہیں ہے۔ علاج علامتوں سے راحت اور پیچیدگیوں کو روکنے پر مرکوز ہوتا ہے۔ نپاہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے کہ جوکھم سے بچا جائے۔ اس میں بیمار جانوروں خاص کر خنزیروں، چمگادڑوں سے بچنا چاہیے۔