اردو کا ایک اور بڑا نقصان، انور معظم بھی چل بسے

شارب ردولوی، امام اعظم، حسیب سوز، انور نزہت، احمد رئیس صدیقی، غلام نبی خیال اور شاعر جمشید آزر کے بعد شاعر ادیب اور استاد پروفیسر انور معظم بھی انتقال کر گئے

<div class="paragraphs"><p>انور معظم</p></div>

انور معظم

user

جمال عباس فہمی

سال 2023 کا آخر آخر ہے اور جاتے جاتے یہ برس اردو شعرو ادب کو صدمات سے دوچار کر رہا ہے۔ شارب ردولوی، امام اعظم، حسیب سوز، انور نزہت، احمد رئیس صدیقی، غلام نبی خیال اور شاعر جمشید آزر کے بعد شاعر ادیب اور استاد پروفیسر انور معظم بھی انتقال کر گئے۔ 94 برس کی عمر میں انہوں نے حیدر آباد میں لمبی بیماری کے بعد دار فانی کو الوداع کہا۔ انور معظم کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے طالب علم اور استاد دونوں حیثیتوں سے رشتہ تھا۔ انور معظم اردو کی ممتاز افسانہ نگار پدم شری جیلانی بانو کے شوہر تھے۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی مطالعات کے سابق سربراہ تھے۔ انور معظم نے کافی قیمتی علمی اور ادبی سرمایہ چھوڑا ہے لیکن انکا منفرد اور اہم ترین نوعیت کا کام 'وضاحتی اردو کتابیات' ہے۔ انور معظم کی قلمی خدمات کا جائزہ لینے سے پہلے انکے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر پر ایک نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

انور معظم کا اصل نام انور علی خاں تھا۔ وہ 1929 میں مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم وطن میں ہی حاصل کی۔ انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد سے ایم اے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ انور معظم کا اصل میدان اسلامی علوم کا مطالعہ تھا۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد کے اسلامی مطالعات کے شعبے کے طویل عرصہ تک سربراہ رہے۔

ان کی سب سے پہلی کتاب ”آثار جمال الدین افغانی“ 1956میں علی گڑھ سے اس وقت شائع ہوئی تھی، جب وہ وہاں پی ایچ ڈی کے طالب علم تھے۔ بعد میں یہ کتاب انگریزی میں بھی شائع ہوئی۔ در اصل یہ کتاب انور معظم کے پی ایچ ڈی مقالے' جمال الدین افغانی کے مذہبی تصورات' پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں پہلی بار جمال الدین افغانی کی دانشورانہ (محض ،مذہبی نہیں )شخصیت کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان نکات کو ابھارا گیا جن پر اب سے پہلے نظر نہیں ڈالی گئی تھی۔


2019 میں انور معظم نے ’غالب کی فکری وابستگیاں‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب نے غالب فہمی کے نئے باب کھولے۔ ویسے تو غالب کی شاعری کی فنی اور معنوی خوبیوں کا مطالعہ غالب کے فوری بعد ہی انکے شاگرد رشید خواجہ الطاف حسین حالی نے شروع کر دیا تھا لیکن جیسے جیسے ہمارا تنقیدی شعور پختہ اور وسیع تر ہوتا گیا غالب کی شاعری اور انکی فکر کے نئے نئے گوشے سامنے آتے چلے گئے۔ مولانا امتیاز علی عرشی، حافظ محمود شیرانی اور مالک رام نے غالب شناسی کے کچھ اچھوتے پہلو اجاگر کئے لیکن انور معظم کا غالب کا مطالعہ ایک خاص انفرادیت کا حامل ہے۔ انہوں نے غالب کی شاعری اور انکی فکر کو الگ زاویہ سے دیکھا ہے۔ انور معظم نے غالب کی زندگی، معاشرتی اور علمی روابط اور بالخصوص انکے عقائد، انکی مذہبی وابستگی اور کائنات کے بارے میں انکے نظریات پر اس انداز سے گفتگو کی ہے کہ عام قاری انکے ساتھ ہو جاتا ہے اور غالب سے انکی نسبت اور رغبت کو سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ انور معظم نے غالب کی حیات شعری کی اقدار کے عنوان کے تحت خدا، جبر و قدر، دانش ،خرد، مذہبی رسوم اور اعمال جیسے موضوعات پر بحث کی ہے۔ غالب کے عقیدے اور مسلک کو موضوع بناتے ہوئے انور معظم نے ایسے ایسے نکات بیان کر دئے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انکے لئے ایک غالب نہیں بلکہ کئی کئی غالب ہیں۔ انور معظم نے بطور سند اپنے مطالب اخذ کرنے کے لئے غالب کے اشعار سے زیادہ انکے خطوط کا جس انداز سے سہارا لیا ہے اس کی نظیر ان سے پہلے کسی غالب شناس کے یہاں نہیں ملتی۔

لیکن انور معظم کا سب سے زیادہ اہم کام 'عمرانی علوم 'کے حوالے سے 'وضاحتی اردو کتابیات' ترتیب دینا ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ کتابیات تحقیق کے ہر شعبے میں ایک لازمی مددگار کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ کسی ایک زبان کو ہی لے لیا جائے تو اس میں عمرانی علوم( سماجی سائنس) کا مواد اس قدر زیادہ موجود ہے کہ تحقیقی کام کرنے والوں کو بغیر کسی مدد کے اس کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔ آج یہ حالت ہے کہ اہل علم اپنے کام کے لئے کتابیات کے محتاج ہیں۔ انگریزی مطبوعات کی فہرستیں تو بہ آسانی دستیاب ہیں لیکن اردو سمیت دیگر زبانوں میں انکا سخت فقدان ہے۔ انور معظم نے ملک کے مختلف حصوں سے حاصل عمرانی تحقیقاتی مواد کی حامل کتابوں کی کتابیات ترتیب دینے کی ذمہ داری قبول کی۔ وضاحتی کتابیات پر علمی کاموں کا دار و مدار ہوتا ہے۔۔تحقیقاتی کام کرنے والوں کو اس کا کم ہی احساس ہوگا کہ کتابیات کی ترتیب کا کام کس قدر دشوار اور محنت طلب ہوتا ہے۔ انور معظم نے ملک کی چودہ بڑی لائبریریز سے معلومات یکجا کیں۔ انہوں نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ ہر کتاب سے حاصل کردہ معلومات پر جو اندراجات تیار کئے گئے ہیں وہ صحیح اور یکساں طرز کے ہوں۔ انہوں نے ہر اندراج میں کتاب میں درج موضوعات کا خلاصہ بھی دیا ہے۔۔ اسلامی علوم کے ماہر ہونے کے ناطے انور معظم اردو میں موجود عمرانی علوم کے ادب پر مبنی انتہائی قابل قدر کتابیات ترتیب دینے میں کامیاب ہو گئے جو ہر دور میں تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے معاون و مددگار ہوگی۔ متعدد جلدوں پر مشتمل یہ کتابیات انیسویں صدی کے اوائل سے لیکر بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کے عرصے پر محیط ہے۔ اس سے آگے کے دور کا کام کرنے والوں کے لئے انور معظم کے نقش پا موجود ہیں۔


انور معظم عثمانیہ یونیورسٹی کے مجلہ کے مدیر بھی رہے۔ انہوں نے1973 میں منتخب اردو اخبارات و جرائد کا موضوعاتی جائزہ لیتے ہوئے ایک کتاب بھی تحریر کی تھی۔

اردو ادب، اسلامیات اور مسلم معاشرے پر ان کا مطالعہ بے حد وسیع تو تھا ہی وہ شعر و شاعری کے میدان میں بھی اپنی خاص شناخت رکھتے تھے۔ ان کے کلام کا کوئی مجموعہ تو منظر عام پر نہیں آیا لیکن انکے متعدد اشعار بہت مقبول ہوئے۔ انور معظم کی شاعری میں کلاسیکیت اور طرز نو کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ انہوں نے شاعری کم کی لیکن بہت معیاری کی۔ ان کا کچھ کلام بطور نمونہ پیش ہے اس سے انکے لہجہ کا آہنگ ظاہر ہوتا ہے۔

آؤ دیکھیں اہل وفا کی ہوتی ہے تو قیر کہاں

کس محفل کا نام ہے مقتل، کھنچتی ہے شمشیر کہاں

-------

آنکھوں میں گھل نہ جائیں کہیں ظلمتوں کے رنگ

جس سمت روشنی ہے ادھر دیکھتے رہو

۔۔۔۔۔

دلوں کی آگ بڑھاؤ کہ لوگ کہتے ہیں

چراغ حسن سے روشن جہاں نہیں ہوتا

۔۔۔۔۔

دھواں اٹھتا نظر آتا ہے ہر سو

ابھی آباد ہے ویرانہ دل کا

۔۔۔۔۔۔۔

ان میں سب اپنا پتہ اپنا نشاں ڈھونڈتے ہیں

جتنے افسانے ترے نام سے منسوب ہوئے

سب دکھاتے ہیں ترا عکس مری آنکھوں میں

ہم زمانے کو اسی طور سے محبوب ہوئے

یہ غزل کی انجمن ہے ذرا اہتمام کر لو

کسی غم کو مے بنا لو کسی دل کو جام کر لو

کہاں صبح غم کا سورج کہاں شام کا ستارہ

اسی رخ پہ زلف بکھرے یہی صبح و شام کر لو

وہ حبیب ہو کہ رہبر وہ رقیب ہو کہ رہزن

جو دیار دل سے گزرے اسے ہم کلام کر لو

یہ کہاں کے محتسب ہیں یہ کہاں کی مصلحت ہے

جو انہیں نہیں میسر وہی شے حرام کر لو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

25 نومبر2023 کو انور معظم کے انتقال کے ساتھ ہی اردو ادب اور اسلامی مطالعہ کے حوالے سے ایک ذریں دور کا خاتمہ ہو گیا۔ ان کے پسماندگان میں اردو ادب کی ایک اہم قلمکار جیلانی بانو اور لائق فرزند اشہر فرحان ہیں۔ اشہر فرحان انور معظم کے یاد گار کارنامے 'عمرانی علوم 'کے حوالے سے 'وضاحتی اردو کتابیات' کی ترتیب میں برابر کے شریک رہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔