سحر انگیز گلوکار کے ساتھ ساتھ ہمدردی اور انکساری کی مثال تھے محمد رفیع

محمد رفیع کی آواز میں ایک فقیرانہ مستی تھی تو ایک جوشیلے نوجوان جیسی حساسیت بھی، ایک ایسی آواز جس میں ’راگ‘ اور ’وِراگ‘ دونوں ہی گہرائی سے محسوس کی جا سکتی تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

فلمی دنیا میں جہاں پیسہ، چمک دمک اور کامیابی ہی خوشی کا پیمانہ ہے، وہاں محمد رفیع کا نام اتنی ہی عزت اور عقیدت کے ساتھ لیا جاتا رہے گا جیسے کسی فقیر کا۔ محمد رفیع صحیح معنوں میں فقیر تھے۔ انھوں نے نہ تو کبھی اس چکاچوندھ کی فکر کی جو انھیں فلمی دنیا میں گھیرے رہی، نہ ہی کبھی پیسوں کی پروا کی۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے پڑوس کی ایک بیوہ کو وہ بغیر بتائے خاموشی کے ساتھ مدد کرتے رہے، پیسے بھیجتے رہے۔ جب ان کا انتقال ہو گیا تبھی اس خاتون کو یہ معلوم ہوا کہ محمد رفیع ہی ان کی مدد کرتے تھے۔ اسی طرح ایک بار وہ سمندر کنارے گھوم رہے تھے کہ ایک بھکاری نے ان سے پیسے مانگے۔ انھوں نے اپنی جیب میں جتنے پیسے تھے وہ سب نکال کر بھکاری کو دے دیے۔ ان کے دوست نے کہا ’’بھائی کم از کم گن تو لیتے۔ یوں بغیر گنے جتنا جیب میں ہو اتنا پیسہ بھیک میں دے دینا ٹھیک نہیں۔‘‘ اس پر محمد رفیع کا جواب تھا کہ ’’جب بھگوان مجھے پیسے دیتے وقت نہیں گنتے تو میں کسی ضرورت مند کو پیسے دیتے وقت کیوں گنوں؟‘‘

مزاجاً رفیع صاحب پھکّڑ ہی تھے۔ کہتے ہیں کہ گانے کی ترغیب انھیں ایک فقیر سے ملی تھی جو گھر گھر جا کر گاتے ہوئے بھیک مانگتا تھا۔ وہ اتنے ہمدرد اور نیک دل تھے کہ کبھی کسی پروڈیوسر سے گانے کی کوئی خاص رقم نہیں مانگی۔ اگر امید سے زیادہ پیسہ مل بھی گئے تو ظاہر کر دیا کہ انھیں زیادہ پیسہ مل گئے ہیں۔

ان کی آواز میں ایک فقیرانہ مستی تھی تو ایک جوشیلے نوجوان جیسی حساسیت بھی، ایک ایسی آواز جس میں ’راگ‘ اور ’وِراگ‘ دونوں ہی گہرائی سے محسوس کی جا سکتی تھی۔ اکثر اچھے اور قابل فنکار تو مل جاتے ہیں لیکن ہمدرد اور انکساری والے فنکاروں کا ملنا ذرا مشکل ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں دوستی، دشمنی، پیار، نفرت، وفا اور بے وفائی کے جذبات کو ان کے عروج پر محسوس کیا جا سکتا ہے، محمد رفیع لگاتار ’نا کاہو سے دوستی نا کاہو سے بیر‘ والی حالت میں رہے جو اپنے آپ میں ایک حصولیابی ہے۔

رفیع صاحب کی گلوکاری میں اتنی رنگا رنگی تھی اور انفرادیت تھی کہ خود منا ڈے نے کہا تھا کہ ’’محمد رفیع کسی بھی قسم کا نغمہ گا سکتے ہیں۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ اسٹیج پر محمد رفیع کا نغمہ ’چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے‘ سنتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو اتنے غمگین ہو گئے تھے کہ ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ صرف پنڈت جی ہی نہیں، محمد رفیع کے نغموں نے سکھ دکھ، تنہائی اور بھیڑ میں ہمیشہ عام ہندوستانی کا ساتھ دیا ہے۔ آج ان کا 94واں یوم پیدائش ہے۔ وہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں لیکن ان کی آواز ہر موقع پر ہمارے ساتھ رہتی ہے اور رہے گی۔ ان کے کچھ نغموں کا آپ یہاں لطف اٹھا سکتے ہیں...

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔