گنا بقایہ کی ادائیگی نہ ہونے سے کسانوں میں ناراضگی، شاملی کلکٹریٹ پر جڑا تالا

دھرنے پر بیٹھے کئی کسان خودکشی کرنے کی بھی بات کرتے ہیں۔ کسان جے پال سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’میں تو خود کشی کے لئے ٹنکی پر چڑھ گیا تھا لیکن صدر کی خوشامد کے بعد نیچے اتر آیا‘‘۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
user

آس محمد کیف

شاملی: مغربی اتر پردیش کی کئی چینی ملوں پر گنا بقایہ کی ادائیگی کے مطالبہ کو لے کر کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یوں تو گنے کی ادائیگی کا نہ ہونا ایک پرانا مسئلہ ہے لیکن اس وقت صورت حال سنگین ہے۔ چینی ملوں پر کسانوں کا مارچ 2018 تک کا 9 ہزار کروڑ روپے بقایہ ہے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 14 دن میں بقایہ کی ادائیگی کا وعدہ تو کیا لیکن اسے نبھانا نہیں۔

مغربی اتر پردیش میں شاملی کے بھی حالات دھماکہ خیز ہیں، جہاں کسان گزشتہ ہفتے سے دوآب شگر مل اور کلکٹریٹ پر جمع ہو کر مظاہرہ کر رہے ہیں۔ شاملی شگر مل پر کسانوں کا 200 کروڑ روپے کا بقایہ ہے جس میں سے 80 کروڑ روپے پچھلے سال کے ہیں۔ لمبے وقت سے ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے کسان پریشان ہیں اور مل کی طرف سے بقایہ کی ادائیگی کا بار بار وعدہ کیے جانے کے بعد بھی کسانوں کو کچھ نہیں مل پا رہا ہے۔

مظاہرہ کر رہے کسان آئے دن نئے نئے جتن کر کے حکومت کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ کسانوں نے سر منڈوانے، اجتماعی تبدیلیٔ مذہب کی دھمکی بھی دی، اجتماعی طور پر نماز بھی پڑھی، کچھ کسان خود کشی کی دھمکی دے کر ٹنکی پر چڑھے، کچھ نصف برہنہ ہو کر دھرنے پر بیٹھے لیکن ان کسانوں کی کوئی سماعت نہیں ہو سکی۔ ہار کر کسانوں نے کلکٹریٹ پر تالا جڑ دیا۔ شاملی میں یہ دھرنا بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) کے رہنما ساوِت ملک کی قیادت میں چل رہا ہے جبکہ دیگر مقامات پر مختلف تنظیمیں اس کی قیادت کر رہی ہیں۔ مثلاً بجنور ضلع کی چاندپور شگر مل پر کسان ’مزدور سنگٹھن‘ کے بینر تلے جدوجہد کر رہے ہیں۔

گنا بقایہ کی ادائیگی نہ ہونے سے کسانوں میں ناراضگی، شاملی کلکٹریٹ پر جڑا تالا

شاملی میں کسانوں کی بھیڑ مسلسل بڑھ رہی ہے اور حکومت کے خلاف غصہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ کسانوں کا الزام ہے کہ ہمارے اتنے جتن کرنے کے بعد بھی حکومت کی نیند نہیں ٹوٹ رہی ہے، وہ صرف گائے، مندر–مسجد میں الجھی ہوئی ہے۔ کسانوں کے دھرنے کو کیرانہ کی رکن پارلیمنٹ تبسم حسن اور سابق رکن پارلیمنٹ ہریندر ملک سمیت اپوزیشن کے تمام رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اترپردیش کے وزیر برائے گنا اسی شاملی ضلع کے رہائشی ہیں۔

کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ ہریندر ملک کا کہنا ہے کہ ’’وزیر برائے گنا کے آبائی ضلع میں گنا کسانوں کی یہ حالت ہے تو صوبہ بھر کے کسانوں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 14 دن میں گنے کا پیمنٹ کیے جانے کا دعوی کرنے والی یوگی حکومت اور ان کے وزیر در اصل مل مالکان کی حمایت میں کھڑے ہیں۔

شاملی کے نوجوان کسان رہنما شبھم ملک نے کہا، ’’صوبہ کی بی جے پی حکومت نے کسانوں کو دھوکہ دینے کا کام کیا ہے۔ مل مالکان اپنے پاس کسانوں کا پیسہ روک کر اس سے منافع کمانے کے لئے سود پر دیتے ہیں یا پھر دوسرے کاروبار میں لگاتے ہیں۔ جبکہ کسان کا بچے فیس نہ ادا کرنے کی وجہ سے کلاس روم سے باہر کھڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ کسان کی بیٹیوں کی شادی وقت پر نہیں ہو پاتی اور ان کی بیماریاں پیسے کے بحران کے سبب بڑھتی جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا ’’یہ سنگین مسئلہ ہے لیکن جس حکومت کو اڈانی–امبانی کی فکر ہے وہ بھلا کسانوں کی طرف کیوں دیکھے گی!‘‘

گنا بقایہ کی ادائیگی نہ ہونے سے کسانوں میں ناراضگی، شاملی کلکٹریٹ پر جڑا تالا

دھرنے پر بیٹھے کئی کسان خودکشی کرنے کی بھی بات کرتے ہیں۔ کسان جے پال سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’میں تو خود کشی کے لئے ٹنکی پر چڑھ گیا تھا لیکن صدر کی خوشامد کے بعد نیچے اتر آیا۔ اگر گنا بقایہ کی ادائیگی نہیں ہوئی تو میں ریل کے آگے کودنے پر مجبور ہو جاؤں گا۔‘‘

وزیر برائے گنا سریش رانا کے مطابق حکومت نے مل مالکان کو گنا کسانوں کی ادائیگی کے مطابق 4 ہزار کروڑ کا لون دیا تھا لیکن شاملی کی دوآب مل رسمی کارروایئوں کو پورا نہیں کر پائی لہذا اسے رقم حاصل نہیں ہو سکی۔‘‘

غور طلب ہے کہ شاملی کا دوآب مل یو پی کی سب سے بڑی ملوں میں سے ایک ہے اور یہاں ایتھینال بھی بنایا جاتا ہے۔ جس سے مل کو 50 روپے فی کوئنٹل کی اضافی آمدنی ہوتی ہے، مل نے اس سے کروڑوں روپے کمائے ہیں لیکن کسانوں کے حصے میں صرف چینی کا پیسہ ہی آپاتا ہے اور وہ بھی انہیں وقت پر نہیں دیا جاتا۔ کانگریس کے سابق رکن اسمبلی پنکج ملک کے مطابق کسانوں کے پاس محدود متبادل ہیں اور وہ بہت زیادہ تناؤ میں ہیں۔

شاملی کی دوآب مل میں گنا ڈالنے والے کسانوں کے مطابق ان کی ابھی تک 23 مارچ 2018 تک کی دائیگی ہوئی ہے جبکہ اس کے بعد شاملی مل نے 124 کروڑ 70 لاکھ 48 ہزار روپے کا گنا خریدا ہے جس میں سے ایک پیسے کی بھی ادائیگی تاحال نہیں کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس مل پر کسانوں کے گزشتہ سال کے بھی 79 کروڑ 83 لاکھ 31 ہزار روپے بقایہ ہیں۔ صوبہ بھر میں مجموعی طور پر کسانوں کے 9 ہزار 665 کروڑ 65 لاکھ روپے ملوں پر بقایہ ہیں۔

نوجوان کسان رہنما شبھم ملک نے کہا، ’’مل مالکان کو کسانوں کا بقایہ جلد از جلد ادا کرنا چاہیے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔ حکومت یوں تو بقایہ کی ادائیگی نہ کرنے پر مل مالکان کو جیل بھیجنے کی بات کرتی ہے لیکن کسان تھانہ میں تحریر دینے جاتے ہیں تو تحریر لینے سے منع کردیا جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا نرم رویہ کس کی طرف ہے۔‘‘

گنا بقایہ کی ادائیگی نہ ہونے سے کسانوں میں ناراضگی، شاملی کلکٹریٹ پر جڑا تالا

ایک اور گنا کسان چودھری دھنویر کا کہنا ہے کہ’’مل مالکان اس مرتبہ بھاری منافع میں ہیں اور انہیں اس مرتبہ 25 روپے فی کوئنٹل اضافی آمدنی بھی ہوئی ہے، کیونکہ گنے کا ریکوری ریٹ 0.8 فیصد بڑھ گیا ہے لیکن اس کے برخلاف کسان کی آمدنی میں 15 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سے کسانوں کو لگ بھگ 15 ہزار روپے فی ایکڑ کا نقصان ہے۔‘‘

کسانوں کے دھرنے میں شامل ہونے کے لئے پہنچی تبسم حسن نے اترپردیش کی یوگی حکومت سے کسانوں کے بقایہ جات کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ دای ہے کہ کسانوں کا جو بھی بقایہ ہے ان تک جلد پہنچے، لیکن حکومت اپنا فرض ادا نہیں کر رہی ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا حکومت کا زور بیت خلا تعمیر کرانے پر ہے لیکن کوئی انہیں یہ بتائے کہ اگر کسان کے پیٹ میں اناج کا ایک دانا نہیں پہنچے گا تو وہ بیت الخلا کس کام سے جائے گا!‘‘

ایک طرف کسانوں کا غصہ ساتویں آسمان پر ہے دوسری طرف مل افسران اپنی مجبوری کا رونا روتے ہیں۔ ادھر شاملی کے ضلع مجسٹریٹ اکھلیش سنگھ نے کہا کہ کسانوں سے گفت شنید جاری ہے اور جلد ہی اس مسئلہ کو حل کر لیا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔