کوئی مسلمان ہندو لڑکی کو چھوئے تو اس کا ہاتھ کاٹ دینا چاہیے، مودی کے وزیر ہیگڑے کا بیان

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بی جے پی رہنما اور مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڑے نے سماج میں نفرت پھیلانے کے ارادے سے ایک نیا بیان دیا ہے، انہوں نے کہا کہ ہندو لڑکیوں کو بھگا کر لے جانے والے مسلمانوں کا ہاتھ کاٹ دینا چاہیے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق اتوار کو وشو ہندو پریشد کی ایک ذیلی تنظیم ’ہندو جاگرن ویدک‘ سے خطاب کرتے ہوئے ہیگڑے نے کہا، ’’اگر ہندو لڑکی کو کوئی مسلم چھوتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دینا چاہیے۔‘‘ ہندو جاگرن ویدک پر کرناٹک کے ساحلی اضلاع میں اشتعال انگیز سرگرمیاں انجام دینے کا الزام عائد ہوتا رہتا ہے۔

شمالی کنڑ ضلع سے رکن پارلیمان ہیگڑے نے کہا، ’’ہمیں اپنے سوچنے کے بنیادی عمل کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمیں دھیان دینا ہوگا کہ ہمارے آس پاس سماج میں کیا چل رہا ہے، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کون کس کے ساتھ بھاگ رہا ہے اور اس میں کون سا طبقہ شامل ہے۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’ہندو نوجوانوں کو قربانی کا بکرا نہیں بلکہ حقوق پر قبضہ کرنے والا چیتا یا ہاتھی بننا ہے۔ بھگوان کے سامنے صرف کمزور جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے، چیتے اور ہاتھی جیسے طاقتور جانوروں کی نہیں۔‘‘ اس دوران انہوں نے دعوی کیا کہ تاج محل کو مغل بادشاہ شاہجہاں نے تعمیر نہیں کرایا تھا بلکہ وہاں پر تیجو مہالیہ نامی ایک مندر تھا۔ انہوں نے قطب مینار کے بارے میں لوگوں کو بتایا کہ وہ پہلے ایک جین مندر تھا۔

اس بیان پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کانگریس رہنما دنیش گنڈو راؤ نے ان سے سوال پوچھا، ’کیا اننت کمار بتائیں گے کہ بطور مرکزی وزیر یا بطور رکن پارلیمان ان کی کیا کامیابیاں ہیں۔ آپ نے کرناٹک کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا، میں یقینی طور سے اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ مایوس کن ہے، ایسے لوگ رکن پارلیمان بن جاتے ہیں اور وزیر کا عہدہ پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‘‘

حالانکہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے جب بی جے پی رہنما ہیگڑے نے اپنے بیان سے تنازعہ کھڑا کیا ہے۔ گزشتہ اکتوبر میں ہیگڑے نے ریاستی حکومت کو ٹیپو سلطان کی جینتی کی تقریب میں خود کو مدعو نہیں کرنے کی بات کہتے ہوئے اس تقریب کو شرمناک قرار دیا تھا۔

ایک ٹوئٹ میں اننت ہیگڑے نے ٹیپو سلطان کو ظالم، قاتل، نیچ اور انتہا پسند قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، ’’آج حکومت ٹیپو سلطان کی جینتی (یوم پیدائش) منا رہی ہے شاید کچھ دن بعد اجمل قصاب کی بھی جینتی منانے لگے۔‘‘

قبل ازیں، 2017 میں انہوں نے یہ کہہ کر تنازعہ کھڑا کر دیا تھا کہ جو لوگ خود کو سیکولر اور دانشور مانتے ہیں ان کی خود کی کوئی شناخت نہیں ہوتی اور وہ اپنی بنیادوں سے انجان ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بی جے پی کو آئین سے لفظ سیکولر نکال دینا چاہیے۔ حالانکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ان کے تبصرے پر سخت رد عمل ظاہر کیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ میں معذرت بھی کی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔