اے ایم یو کو عثمانیہ یونیورسٹی بنانے کی کوشش نہ کریں

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے نائب صدر اور سکریٹری کا بیان اخباروں میں تو خوب نظر آ رہا ہے لیکن زمینی سطح پر صدر جمہوریہ کے استقبال کی تیاری زور و شور سے جاری ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے 2010 میں ایک ایسا متنازعہ بیان دیا تھا جو آج ان کے لیے پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے نائب صدر سجاد سبحان نے اس پرانے بیان پر صدر جمہوریہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ معافی نہیں مانگتے تو اے ایم یو کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں شامل نہ ہوں۔ ساتھ ہی سجاد سبحان نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں اور کچھ غلط ہوتا ہے تو اس کے لیے صدر جمہوریہ اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر خود ذمہ دار ہوں گے۔

دراصل 2010 میں صدر جمہوریۂ ہند نے ’اسلام اور عیسائیت‘ کو ہندوستان کے لیے ’ایلین‘ یعنی باہری قرار دیا تھا۔ اس وقت وہ بی جے پی کے ترجمان تھے اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے سماجی و اقتصادی طور پر پسماندہ مذہبی و لسانی اقلیتوں کو ریزرویشن دینے کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو شیڈولڈ کاسٹ میں شامل کرنا غیر آئینی ہوگا۔‘‘ اس پر جب ان سے یہ پوچھا گیا تھا کہ سکھوں کو تعلیمی اداروں میں ریزرویشن کس طرح دیا جاتا ہے؟ تو انھوں نے کہا تھا کہ ’’اسلام و عیسائیت ملک کے لیے باہری ہیں۔‘‘

جہاں تک اے ایم یو اسٹوڈنٹ یونین کے لیڈروں کی ناراضگی کا سوال ہے، ویسے تو زمین پر یہ نظر نہیں آرہی ہے اور اے ایم یو میں صدر جمہوریہ کے استقبال کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، لیکن میڈیا، خصوصاً ہندی میڈیا میں اسٹوڈنٹ یونین لیڈروں کے بیان کو جس طرح ترجیحی بنیاد پر شائع کیا جا رہا ہے اس سے ظاہر ہے کہ اکثریتی طبقہ کو مشتعل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ اسٹوڈنٹ یونین کے سکریٹری محمد فہد نے ایک بی جے پی ممبر پارلیمنٹ کے ذریعہ علی گڑھ کے ساتوں ممبران اسمبلی کے ساتھ یونیورسٹی کی تقریب میں شامل ہونے کے بیان پر تلخ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’سات نہیں سات سو ممبران اسمبلی کو لے کر آئیں، اور وہ یونیورسٹی کے انڈر گھس کر دکھا دیں۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے اے ایم یو انتظامیہ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’یونیورسٹی کے مالک طلبا ء ہیں، یہاں کا اے ایم یو انتظامیہ نہیں۔ انتظامیہ میں بیٹھے میر قاسم اور میر صادق جیسے لوگ اس کو عثمانیہ یونیورسٹی بنانے کی کوشش نہ کریں، نہیں تو ان کی بوٹیاں نوچ ڈالیں گے۔‘‘ محمد فہد ناراض اس لیے ہوئے کیونکہ اسٹوڈنٹ یونین کی طرف سے گزشتہ دنوں کہا گیا تھا کہ رام ناتھ کووند یونیورسٹی میں آئیں لیکن آر ایس ایس کارکنان کو مدعو نہیں کیا گیا ہے اس لیے کوئی آر ایس ایس کارکن یونیورسٹی کی تقریب میں شرکت نہ کرے۔

بہر حال، نہ تو صدر جمہوریہ کے پرانے بیان پر اسٹوڈنٹ یونین کے نائب صدر سجاد سبحان کو سخت رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا اور نہ ہی بی جے پی لیڈر کے کسی اشتعال انگیز بیان پر ’اینٹ کا جواب پتھر‘ جیسا طرز اختیار کرتے ہوئے محمد فہد کو غیر مہذب جملہ استعمال کرنا چاہیے تھا۔ جس طرح اے ایم یو میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کے استقبال کی تیاریاں زور و شور سے چل رہی ہیں اس سے اتنا تو طے ہے کہ تقریب میں وہ شریک ہوں گے ہی، اور بیان پر معافی مانگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ صدر جمہوریہ اسٹوڈنٹ یونین لیڈروں کی باتوں کو نظر انداز کرنے کو ہی ترجیح دیں گے۔ آخر میں تو یہی نتیجہ نکلنے والا ہے کہ پروگرام ہلکے پھلکے احتجاج کے درمیان کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا اور سجاد سبحان اور محمد فہد کی وجہ سے پورا مسلم طبقہ ناکام اور ناکارہ ثابت ہو جائے گا۔کسی کے بھی بیان سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ نہیں ہونا چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔