جے امت شاہ معاملہ: پیوش گوئل کو بہت سے سوالوں کے جواب دینے ہوں گے

ایک پبلک سیکٹر انڈر ٹیکنگ (پی ایس یو ) نے قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے کُسم فنسروے نامی کمپنی کو 10.35 کروڑ روپے کا قرضہ دیا جس میں امت شاہ کے بیٹے جے امت شاہ 60 فی صد حصص کے مالک ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: اتوار کے روز وائر.ان نے سوال کیا تھا کے بی جے پی صدر امت شاہ کے بیٹے کی کمپنی گزشتہ سال انتہائی پراسرار انداز میں کیوں بند کر دی گئی جبکہ یہ کمپنی 16000گنا ترقی کرتے ہوئے 50,000روپے سے بڑھ کر 80.5کروڑ روپے تک پہنچ گئی تھی۔

اس میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کسم فنسروے جو لمٹیڈ لائبلٹی پارٹنرشپ ہے اور اس میں جے شاہ کے پاس 60 فی صد کا کنٹرول ہے اس کو منی رتنا پی ایس یو انڈین رینوایبل اینرجی ڈولپمنٹ ایجنسی (آئی آر ای ڈی اے ) سے 10.35کروڑ روپے کا قرضہ حاصل ہوا۔

جس وقت اس کمپنی کو یہ قرضہ سینکشن کیا گیا اس وقت پیوش گوئل اس کے وزیر تھے۔ پیوش گوئل کو اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ اس کمپنی کو جو کہ اسٹاکس میں تجارت کرتی تھی اس کو آئی آر ای ڈی اے کے تمام قوانین وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اتنا بڑا قرضہ دے دیا گیا۔ اس سے متعلق وہ تمام دستاویزات ’قومی آواز‘ کے پاس ہیں جن سے اس معاملے میں دھاندلی ثابت ہوتی ہے۔



وہ دستاویز جس سے پتہ لگتا ہے کہ جے امت شاہ کی کسم فنسروے کو آئی آر ای ڈی اے سے 10.35کروڑ روپے کا قرضہ حاصل ہوا۔
وہ دستاویز جس سے پتہ لگتا ہے کہ جے امت شاہ کی کسم فنسروے کو آئی آر ای ڈی اے سے 10.35کروڑ روپے کا قرضہ حاصل ہوا۔


آئی آر ای ڈی اے کا وہ اسکرین شاٹ جس میں واضح طور پر درج ہے کہ قرضہ 1 میگاواٹ تک کے منصوبوں کے اکوپمنٹ فائننسنگ اسکیم کے لئے ہے اور وہ بھی منصوبے کی کل لاگت کا 70فیصد تک کا حصہ ہی دیا جا سکتا ہے۔
آئی آر ای ڈی اے کا وہ اسکرین شاٹ جس میں واضح طور پر درج ہے کہ قرضہ 1 میگاواٹ تک کے منصوبوں کے اکوپمنٹ فائننسنگ اسکیم کے لئے ہے اور وہ بھی منصوبے کی کل لاگت کا 70فیصد تک کا حصہ ہی دیا جا سکتا ہے۔

آئی آر ای ڈی اے کے ان ضابطوں کے مطابق جن کو ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے وہ صرف ان منصوبوں کو قرضہ دے سکتی ہے جو 1میگاواٹ تک کے ہوں، جبکہ جے شاہ کی کمپنی نے مدھیہ پردیش، رتلام میں اپنے 2.1 میگاواٹ کے پلانٹ کے لئے پرپوزل دیا تھا ۔

جیسا آئی آر ای ڈی اے کی ویب سائٹ کے اسکرین شاٹ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایسے قرضے منصوبے کی کل لاگت کے 70فی صد رقم تک کے لئے دئے جا سکتے ہیں لیکن کسم فنسروے ونڈ پاور منصوبے کی کل لاگت 15کروڑ روپے درج ہے، اس لئے 10.35 کروڑ روپے اس 70فی صد کے برابر کی رقم ہے جو ضابطوں میں درج ہے۔

یہ منصوبہ کیونکہ 2.1میگاواٹ کا ہے اور اس کی لاگت 15کروڑ ہے تو 1میگاواٹ پلانٹ کی لاگت 7کروڑ روپے ہونی چاہیے اور اس 7کروڑ کا 70فی صد 4.9کروڑ روپے ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کمپنی آئی آر ای ڈی اے سےصرف 4.9 کروڑ کے قرضے کی اہل تھی لیکن جے امت شاہ کی کمپنی کو 10.35کروڑ روپے کا قرضہ ملا۔

دی وائر.ان نے اپنی رپورٹ میں جے امت شاہ کے وکیل کو اپنے مضمون میں کوٹ کیا ہے ’’2.1 میگاواٹ ونڈ اینرجی پلانٹ لگانے کے لئے جو آئی آر ای ڈی اے سے قرضہ لیا گیا ہے وہ ان اکوپمنٹ کی اس وقت کی قیمت پر مبنی ہے جو اس وقت مارکیٹ میں تھے (تقریبا 14.3 کروڑ روپے ) جن کو عام طریقے سے دیکھا اور سینکشن کیا گیا ہے۔ 30 جون 2017 کو آؤٹ اسٹینڈنگ قرضہ 8.52 کروڑ روپے ہے اور قرضے کی واپسی پابندی سے کی جا رہی ہے‘‘۔

تو کیا وہ جان بوجھ کر صحافیوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا وہ آئی آر ای ڈی اے کے ضابطوں سے واقف نہیں ہیں۔

یہاں ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ جے امت شاہ کے دفاع میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مرکزی وزیر پیوش گوئل آئے ہیں۔ کیا اس میں کوئی تعلق ہے کہ جس وقت قرضہ پاس کیا گیا اس وقت آئی آر ای ڈی اے کی وزارت پیوش گوئل کے پاس تھی۔ گوئل سے یہ سوال پوچھنا تو بنتا ہی ہے کہ حکومت نے جے امت شاہ کی کمپنی کو قرضہ دیتے وقت آئی آر ای ڈی اے کے ضابطوں کی خلاف ورزی کی تھی۔

اس سے متعلق خبر میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ ٹیمپل انٹرپرائز پرائویٹ لمٹیڈ فرم جس کے پروموٹر جے امت شاہ ہیں انہوں نے 15-2004 میں کمپنی کی سالانہ ریٹرن جو رجسٹرار آف کمپنی میں جمع کرائی تھی اس میں محض 50,000 کی رقم دکھائی تھی اور اس کا منافع 18,728 روپے تھا۔ لیکن اگلے ہی سال یعنی 16-2015 میں کمپنی کا سالانہ ٹرن اوور ’پروڈکٹس کی بکری ‘ سے 80.5کروڑ روپے ہو گیا۔ کمپنی نے 15.78کروڑ روپے کا قرضہ اس نے آئ ایف ایس فائننشل سروسز سے لیا جس کے مالک راجیش کھنڈیل وال ہیں جو راجیہ سبھا کے آزاد رکن اور ریلائنس کے اعلی افسر پریمل ناتھوانی کے سمدھی ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ رپورٹ میں الزام ہے کہ کے آئی ایف ایس فائننشل سروسز نے جو دستاویزات فائل کئے ہیں اس میں اس قرضہ کا ذکر نہیں ہے جو اس نے جے امت شاہ کی کمپنی کو دیا تھا۔ رپورٹ میں اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا گیا ہے کہ کے آئی ایف ایس کیسے 15.78کروڑ روپےکا قرضہ دے سکتی ہے جبکہ اس سال اس کا اپنا ریونیو محض 7کروڑ روپے تھا۔

جولائی ماہ میں امت شاہ نے جو الیکشن کمیشن میں دستاویزات جمع کئے تھے اس میں ان کے اثاثہ میں زبردست اضافہ نظر آیا تھا۔ اس وقت اس اضافہ کو جائز ٹھرانے کے لئے بی جے پی کو ایک اخباری بیان جاری کرنا پڑا تھا۔ سال 2012میں امت شاہ نے اپنا منجمد اثاثہ 1.90کروڑ روپے دکھایا تھا جبکہ اس سال انہوں نے یہ اثاثہ 19کروڑ روپے دکھایا ہے۔

اسی طرح شاہ کا غیر منجمد اثاثہ اس دوران 6.63کروڑ روپے سے بڑھ کر 15کروڑ روپے ہو گیا۔ بی جے پی نے جولائی 2017میں یہ وضاحت کی تھی کہ2013میں امت شاہ کی والدہ کے انتقال کے بعد ان کو وراثت میں جو جائداد ملی ہے اس کی وجہ سے یہ اضافہ ہوا ہے۔

اب امت شاہ کے بیٹے کی کمپنیوں کی ترقی سے سب حیران و پریشان ہیں۔ سینئر کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر کپل سبل نے ان کی کمپنیوں کے معاملات کی آزادنہ جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ’’اس کا تو صرف جانچ سے ہی پتہ لگ سکتا ہے کہ اس کمپنی کو کیسے بغیر کسی سیکورٹی اور کسی چیز کو گروی رکھے اتنے کروڑ روپے کا قرضہ مل گیا۔

صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ سی بی آئی اور ای ڈی سے کن کمپنیوں کی جانچ کرائی جائے گی اور کن کو چھوڑا جائے گا۔ انہوں نے وزیر اعظم کو چیلنج کیا کہ وہ ٹیمپل انٹر پرائزیز پرائویٹ لمٹیڈ کے معاملات کی جانچ کرائیں۔ دریں اثنا دی وائر.ان کی رپورٹ کے مطابق امت شاہ کے وکیل منک ڈوگرا نے ذرائع ابلاغ کو دھمکی دی ہے کہ اگر کمپنی کے تعلق سے غلط خبر شائع ہوئی تو اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔

بی جے پی کے لئے یہ تنازعہ انتہائی پریشان کن ہے کیونکہ گجرات انتخابات میں محض دو ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے اور اقتصادی محاذ پر وزیر اعظم پریشان ہیں۔ اس نئے تنازعہ سے بی جے پی کے لئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

  کل سے اس خبر کے تعلق سے جوٹوئٹ گشت کر رہے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

شرمشٹھا مکھرجی نے لکھا، بی جے پی نے اپنا نعرہ ’وکاس کی جے ‘ سے بدل کر ’ جے کا وکاس ‘ کر دیا ہے۔ کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ جے کہاں چھپا ہوا ہے #امت شاہ کی لوٹ۔

بی جے پی کا آئی ٹی سیل شاہ جونیر کے دفاع میں اترا ہوا ہے۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کےسربراہ امت مالویہ نے الزامات کارخ موڑنے کی کافی کوشش کی۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ہر کاروبار زیرو ٹرن اوور سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ بتانا بھول گئے کہ جس کمپنی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں وہ 2004کی ہے اور اس نے 14-2013 تک نقصان دکھایا ہے اور 2015میں قرضہ لیا اور مارکیٹ میں پیسہ کمایا اور 2016میں کمپنی بند کر دی۔

  اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔  

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Oct 2017, 11:28 PM