کیرالہ میں امت شاہ کے جھوٹ کا پردہ فاش

Twitter
Twitter
user

قومی آوازبیورو

بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے گزشتہ 3 اکتوبر کو کیرالہ میں ’جن سُرکشا‘ یعنی عوامی تحفظ یاترا نکالی اور ایسی ہوا پھیلا دی جیسے کیرالہ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی ایم) کا آر ایس ایس اور بی جے پی لیڈروں کے قتل کے علاوہ دوسرا کوئی کام نہیں ہے۔ ’یہ مارکس کے دُلارے ہیں، ہندوؤں کے ہتیارے ہیں‘ جیسے نعروں پر مشتمل امت شاہ کی ریلی نے ایسا ظاہر کیا جیسے اُن پر ظلم کا پہاڑ توڑا جا رہا ہے۔ لیکن جب آپ زمینی حقیقت کا پتہ کریں گے تو اندازہ ہوگا کہ گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں بی جے پی اور آر ایس ایس سے کہیں زیادہ سی پی آئی ایم کے لیڈران قتل کیے گئے ہیں۔ دراصل کیرالہ میں بی جے پی/آر ایس ایس اور سی پی آئی ایم کے لیڈران کے درمیان پچھلے کچھ وقت سے سیاسی لڑائی جاری ہے۔ ان کی یہ آپسی لڑائی ظلم نہیں بلکہ پرتشدد جدوجہد کا معاملہ ہے جس میں کبھی بی جے پی و آر ایس ایس کے لیڈران مارے جاتے ہیں تو کبھی سی پی آئی ایم کے رہنما ۔

لیفٹ اور ہندوتوا لیڈروں کی لڑائی میں سب سے زیادہ ہلاکت لیفٹ لیڈران کے ہونے سے متعلق تصدیق ریاستی کرائم ریکارڈ سے ہوتی ہے جس کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ معاملہ یکطرفہ نہیں دوطرفہ ہے اور لیفٹ و ہندوتوا نظریات کی پارٹیاں آپس میں متصادم ہیں۔ کیرالہ کی ایک صحافی سنیہا جوشی نے اپنی ایک تحریر میں دعویٰ بھی کیا ہے کہ پولس ریکارڈ کے مطابق گزشتہ 17 سالوں میں 172 سیاسی قتل ہوئے ہیں جن میں 65 آر ایس ایس اور بی جے پی کارکنان کے قتل ہوئے جب کہ سی پی آئی ایم کے 85 کارکنان کی جانیں تلف ہوئی ہیں۔ اس نمبر کو دیکھ کر کون کہے گا کہ نظریاتی اختلافات کے سبب صرف بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکنان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ محض امت شاہ کا جھوٹ ہے اور سبھی کو معلوم ہے کہ وہ اس فن میں مہارت رکھتے ہیں۔

حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ میڈیا بھی امت شاہ اور ہندوتوا ذہنیت رکھنے والے لیڈروں کے جھوٹ کو اس طرح پھیلا رہی ہے جیسے کیرالہ میں ہندوؤں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ ایسا احساس کرایا جا رہا ہے کہ آر ایس ایس نظریات کے حامی لوگوں کو چن چن کر ہلاک کیا جا رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے پی و آر ایس ایس اور سی پی آئی ایم کی نظریاتی جنگ میں کئی معصوموں کی جانیں بھی چلی جاتی ہیں اور ریاست کے پرامن ماحول پر جو منفی اثر پڑتا ہے وہ الگ۔ قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ 17 سالوں کے پولس ریکارڈ کے مطابق 11 کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے کارکنان کا بھی قتل ہوا ہے لیکن اس کی بات کوئی نہیں کرتا۔

جس طرح کا ماحول ہندوتوا ذہنیت رکھنے والے لیڈروں نے کیرالہ میں پیدا کر رکھا ہے اس سے تو صرف یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ امن پسند ریاست کا ماحول خراب کر لوگوں میں خوف پھیلانا چاہتے ہیں اور ’سام دام دَنڈ بھید‘ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ریاست میں اپنی گرفت مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے تحت بھگوا لیڈران کیرالہ کے معصوم ذہن کو پراگندہ کرنے پر آمادہ ہیں۔

آئیے اب ذرا کیرالہ میں ہوئے سیاسی قتل سے متعلق ایک آر ٹی آئی سے حاصل اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں۔ ایک نیوز ویب سائٹ نے اس سلسلے میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ 16 سالوں میں 69 سیاسی قتل ہوئے ہیں اور ان میں آر ایس ایس و بی جے پی اور سی پی آئی ایم کارکنان کی تعداد تقریباً برابر ہے۔ اس رپورٹ میں 30 ہندوتوا نظریات کے لوگوں اور 31 سی پی آئی ایم کارکنان کا قتل ہوا ہے، بقیہ دوسری پارٹیوں کے کارکنان ہیں۔ کیا اس بات سے واضح نہیں ہو جاتا ہے کہ بھگوا تنظیمیں جس قتل کو ظلم قرار دے رہی ہیں وہ دو سیاسی خیموں کی لڑائی ہے؟ یہ صرف کیرالہ کی فضا کو گجرات، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور ان جیسی ریاستوں کی طرح زہر آلود بنانے کی کوشش ہے، اور کچھ نہیں۔

بی جے پی صدر امت شاہ نے اپنے نام نہاد ’جن سُرکشا یاترا‘ کے دوران ایک اور جھوٹا بیان دیا جس پر کسی میڈیا نے گرفت نہیں کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’جب سے ریاست میں کمیونسٹ حکومت برسراقتدار آئی ہے تب سے سیاسی تشدد کا دور شروع ہو گیا ہے۔‘‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایل ڈی ایف کے دور اقتدار میں بھی سیاسی قتل ہوتے رہے ہیں اور یو ڈی ایف کا دور اقتدار بھی اس سے خالی نہیں رہا ہے۔ نیشنل کرائم بیورو کے 2000 سے 2016 تک کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیے تو پتہ چلے گا کہ سیاسی قتل کا مرکز رہے کنّور میں ایل ڈی ایف کے دور اقتدار میں 50 فیصد قتل ہوئے جب کہ یو ڈی ایف کے دور اقتدار میں 20 سے 30 فیصد قتل ہوئے۔

اوپر دیے گئے اعداد و شمار سے یہ بات تو ثابت ہے کہ نشانہ صرف بی جے پی و آر ایس ایس کے کارکنان ہی نہیں بن رہے ہیں اور نہ ہی سیاسی قتل صرف سی پی آئی ایم کے دور میں ہوئے ہیں۔ یہ صرف افواہیں ہیں جو آر ایس ایس و بی جے پی کے غنڈوں کے ذریعہ مشتہر کی جا رہی ہیں۔ قطعاً یہ معاملہ ظلم کا نہیں ہے، یہ سیاسی رنجش ہے اور قتل و خون کا بازار دونوں جانب سے گرم ہے۔ لیکن یہاں افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان افواہوں کو اس طرح پھیلایا جاتا ہے کہ کروڑوں لوگ اسے حقیقت مان بیٹھتے ہیں۔ عوام اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتی ہے کہ انھیں جو کچھ دکھایا اور سنایا جا رہا ہے وہ سچ ہے۔

کیرالہ میں جھوٹ اور غلط فہمی کی ہوا تیز کرنے کے لیے امت شاہ نے تو ہر ممکن کوشش کی ہی، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اور یہ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ خود اتر پردیش میں یوگی حکومت کی لاپروائی سے ہزاروں اموات ہوئی ہیں جو ظلم اور صرف ظلم ہے۔ علاوہ ازیں اتر پردیش میں کئی سیاسی کارکنان کا قتل بھی ہوا ہے جسے بی جے پی سیاسی قتل ماننے سے انکار کرتی رہی ہے۔ یوگی کی حلف برداری کے بعد الٰہ آباد میں بی ایس پی لیڈر کے قتل سے جس سیاسی قتل یعنی ظلم کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ جاری و ساری ہے اور ابھی کچھ دنوں پہلے ہی بی ایس پی لیڈر راجیش یادو کا قتل بھی ہوا۔ لیکن اس معاملے میں یوگی حکومت بھی خاموش ہے اورآر ایس ایس نظریات کے حامل نام نہادمحب وطن لیڈران بھی۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔