شاہ کا شرمناک بیان… ’کانگریس ممبران اسمبلی بند نہ ہوتے تو بنتی ہماری حکومت‘

کانگریس نے امت شاہ کے بیان کو ’کھسیانی بلّی کھمبا نوچے‘ قرار دیا ہے۔ امت شاہ نے دہلی میں پریس کانفرنس کر کہا تھا کہ کانگریس نے ممبران اسمبلی کو ہوٹل میں بند نہ رکھا ہوتا تو حالات کچھ اور ہوتے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وشو دیپک

’’کانگریس نے اپنے ممبران اسمبلی کو ہوٹل میں بند کر رکے رکھا تھا، باہر ہوتے تو طے ہو جاتا کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔‘‘ بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے پیر کے روز دہلی میں ہوئی ایک پریس کانفرنس میں جب خرید و فروخت کےا لزام پر یہ جواب دیا تو وہاں موجود سبھی لوگ قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ صحافیوں کی ہنسی سے کھسیائے امت شاہ نے کہا کہ یہ ہنسنے کی بات نہیں ہے، حقیقت ہے۔ اگر انھیں بند نہیں کیا جاتا اور انھیں ’وجے جلوس‘ نکالنے دیا جاتا تو ’عوام‘ ہی طے کر دیتی کہ ووٹ کہاں دینا ہے۔ ان کے اس بیان سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ وہ خرید و فروخت کرنا چاہتے تھے بس ان کو موقع نہیں ملا۔ ان کے اس بیان پر طنز کرتے ہوئے کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے کہا ’’اگر پڑوسی کے گھر میں تالا نہیں ہوتا تو میں کروڑ پتی ہوتا‘‘۔

امت شاہ نے جب ’عوام‘ کہتے ہوئے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر گھمایا تو اشارہ صاف تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ جب ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی رگڑی جاتی ہے تو بات پیسے کی ہو رہی ہوتی ہے۔ امت شاہ بھی غالباً اسی طرف اشارہ کر رہے تھے۔

کانگریس نے امت شاہ کے اس رویے کو ’کھسیانی بلّی کھمبا نوچے‘ قرار دیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر آنند شرما نے کہا کہ بی جے پی کو دوسری پارٹیوں کے ممبران اسمبلی کو چرانے میں مہارت حاصل ہے۔ بی جے پی نے اپنے اعمال کی وجہ سے اس انتخاب میں اپنے چہرے پر سیاہی پوتی ہے۔

کانگریس کی جانب سے یہ رد عمل اس وقت آیا ہے جس سے ٹھیک پہلے بی جے پی صدر نے کرناٹک انتخابات کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس کی تھی۔ انھوں نے اس میں کہا تھا ’’بی جے پی کرناٹک میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ یہی سبب ہے کہ اس نے حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا۔ بی جے پی نے جب دعویٰ پیش کیا تھا تو کانگریس اور جے ڈی ایس کا اتحاد نہیں ہوا تھا۔‘‘ شاہ نے اسی کے ساتھ دعویٰ کیا تھا کہ اگر ریاست میں ممبر اسمبلی یرغمال نہ بنائے جاتے تو وہاں حکومت بی جے پی کی ہی ہوتی۔

آنند شرما نے کہا کہ ’’کانگریس نے اپنے ممبران اسمبلی کو بی جے پی سے بچایا ہے۔ مرکزی حکومت نے انھیں توڑنے میں اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی۔ چونکہ بی جے پی سب سے امیر پارٹی ہے اس لیے اس نے ممبران اسمبلی کو 20 کروڑ روپے دیے۔ انھوں نے اتنے پیسے دیے کیونکہ وہ کالے دھن کا کُبیر ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔