گجرات میں بی جے پی کے لئے راہ آسان نہیں

بی جے پی کے لیے گجرات کا انتخاب وقار کا سوال ہے اور یقیناً یہ کہا جا سکتا ہے کہ  گجرات ملک کی بہت سی ریاستوں میں سے ایک ہے لیکن اس کے سیاسی معنی بہت زیادہ ہیں۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

آر کے مشرا

دو دہائیوں میں یہ شاید پہلا موقع ہے کہ گجرات اسمبلی انتخابات سے پہلے حکمران بی جے پی کو پارٹی کارکنوں اور حامیوں کی ناراضگی کو دور کرنے کے لیے دن رات کام کرنا پڑرہا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ پارٹی کی نچلی سطح پر شروع ہونے والی آگ کو بجھانے کے لیے مسلسل گجرات میں ڈیراڈالے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی آ جا رہے ہیں ور ان کی تمام انتخابی ریلیوں کا پروگرام تیار کیا جا رہا ہے۔

بی جے پی کے لیے گجرات کا انتخاب وقار کا سوال ہے اور یقیناً یہ کہا جا سکتا ہے کہ  گجرات ملک کی بہت سی ریاستوں میں سے ایک ہے لیکن اس کے سیاسی معنی بہت زیادہ ہیں۔ اس الیکشن کو مودی-شاہ کے لیے ذاتی امیج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بی جے پی نے اعلان کیا ہے کہ نومبر کے آخر میں وزیر اعظم دوبارہ گجرات کا دورہ کریں گے اور دو دن تک وہ گھر گھر جا کر ووٹر سلپس تقسیم کریں گے۔ اس دوران وہ عوام سے بی جے پی کو ووٹ دینے کی اپیل کریں گے۔ یہ پہلا موقع ہے جب وزیر اعظم خود کسی ریاست میں ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے ووٹر سلپس تقسیم کریں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس الیکشن میں بی جے پی کو کس صورتحال کا سامنا ہے۔


نریندر مودی نے گجرات میں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں 34 ریلیاں کی تھیں  اور دیکھنا  یہ  ہے کہ اس بار ان کی ریلیوں کی تعداد  کتنی ہوگی۔ ریاست میں مودی کی ریلیوں کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی وقت کانگریس کے سابق صدر 'بھارت جوڑو یاترا' سے پارٹی کو زندہ کرنے والے راہل گاندھی بھی 21 اور 22نومبر کو نوساری میں انتخابی ریلیاں کرنے والے ہیں۔ وزیر اعظم مودی اور کانگریس لیڈر راہل گاندھی ایک ہی دن نوساری میں ہوں گے۔

موربی پل حادثہ بھی ایسے وقت میں ہوا ہے کہ اس نے بی جے پی کو سیاسی طور پر مشکل میں ڈال دیا ہے اور جس طرح سے گجرات ہائی کورٹ نے اس معاملے میں ریاستی حکومت پر تضحیک آمیز تبصرہ کیا ہے، اس نے بی جے پی کو کافی بے چینی میں ڈال دیا ہے۔ 30 اکتوبر کو موربی پل حادثے میں سرکاری طور پر 135 لوگوں کی جان گئی تھیں اور اس کے بعد سے حکومت اس معاملے میں کوئی جواب نہیں دے پائی ہے۔ معاملے کی سماعت کے دوران حکومت کی طرف سے دیے گئے جواب سے مطمئن نہ ہو کر ہائی کورٹ نے وہ تمام ریکارڈ طلب کر لئے ہیں جن کی بنیاد پر پل کی دیکھ بھال کا ٹھیکہ اجنتا مینوفیکچرنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کو دیا گیا تھا۔ عدالت نے حکومت سے کئی تند و تیز سوالات کئے۔ اس کے ساتھ ہی اسمبلی میں تعداد کے لحاظ سے دوسری سب سے بڑی پارٹی کانگریس نے بھی موربی میں بی جے پی پر شدید حملہ کیا ہے۔ پارٹیوں نے الزام لگایا ہے کہ اتنے بڑے انسانی سانحہ کے بعد بھی جس طرح سے بی جے پی صنعتکار جیسکھ پٹیل کے خلاف کوئی سیدھی کارروائی نہیں کر رہی ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران پارٹی میں پٹیل کی بہت زیادہ پہنچ ہے اور ریاستی حکومت اس حادثے کے لیے ذمہ دار ہے اور وہ اس ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی۔ اس طرح ریاست کے کئی علاقوں میں موربی ایک بڑا انتخابی مسئلہ بن گیا ہے۔


وزیر اعظم مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ خاص طور پر سوراشٹر خطہ پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 2017 میں ہوئے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں یہاں بی جے پی کی کارکردگی خراب رہی تھی اور بی جے پی کسی طرح یہاں کی کھوئی ہوئی زمین واپس حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس علاقے میں وزیراعظم کی چار ریلیوں کا امکان ہے۔

ایک اور عنصر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پہلا الیکشن ہے جب بی جے پی کو بڑی تعداد میں باغی امیدواروں کا سامنا ہے۔ان باغیوں کو پرسکون کرنے کے لیے امت شاہ نے مرکزی وزراء، گجرات کے ممبران پارلیمنٹ اور تقریباً تمام بی جے پی حکومت والی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو تعینات کیا ہے، لیکن پھر بھی کئی حلقے ایسے ہیں جہاں کوئی چال کام نہیں کر رہی ہے۔


جب کہ وجے روپانی اور نتن پٹیل جیسے سینئر پارٹی لیڈروں نے 'رضاکارانہ طور پر' انتخابات سے پرہیز کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ  مختلف حلقوں میں ان کے حامیوں میں ناراضگی ہے اور وہ پارٹی کے سرکاری امیدواروں کے لیے وہ کام کرتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ پارٹی کارکنان خاص طور پر ان اسمبلی حلقوں میں پریشان ہیں جہاں نئے لوگوں یا کانگریس سے آنے والوں کو پارٹی نے امیدوار بنایا ہے۔ ان علاقوں میں ٹکٹ کے لیے انتخاب لڑنے والے پارٹی رہنماؤں میں عدم اطمینان ہے اور اس کا اثر پارٹی میں نچلی سطح پر دیکھا جا رہا ہے۔

پچھلے سال جب وجے روپانی کی پوری کابینہ کو ہٹا دیا گیا تو وزیر داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجہ کی کرسی بھی جاتی  رہی تھی ۔ پردیپ سنگھ نے اس بار الیکشن نہ لڑنے کی خواہش ظاہر کی اور ان کے پرسنل اسسٹنٹ بابو سنگھ جادھو کو بی جے پی نے احمد آباد کی واتوا سیٹ سے امیدوار بنایا ہے۔ وڈودرا ضلع کی واگھودیا سیٹ سے بی جے پی کے موجودہ ایم ایل اے مدھو سریواستو کو پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا اور اس سے ناراض سریواستو نے آزاد امیدوار کے طور پر پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے اور وہ بی جے پی کے سرکاری امیدوار کے خلاف کھڑے ہیں۔موصولہ اطلاعات کے مطابق، بی جے پی نے انہیں بی جے پی کے سرکاری امیدوار کے خلاف الیکشن لڑنے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیے راضی کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن اب تک اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔


کچھ کے علاقے کے مانڈوی سے بی جے پی کے سابق ایم ایل اے راجندر سنگھ جڈیجہ نے پارٹی چھوڑ کر کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے دھوال سنگھ جھالا شمالی گجرات کے بیاد حلقہ سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ماوجی دیسائی بھی بناس کانٹھا ضلع کے دھنیرا سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پنچ محل میں بی جے پی کے سابق ایم پی پربھات سنگھ چوہان نے پارٹی چھوڑ دی اور اب کلولاس سے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ لوناواڈا حلقہ میں بی جے پی کے دو باغی ایس ایم کھانٹ اور جے پی پٹیل آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔