اے ایم یو: مقدمے واپس لینے کی یقین دہانی پر 8 روز بعد طلبا کا دھرنا ختم

ایک نامزد طالب علم کو جیل بھیجنے پر ہزاروں طلبا کے گرفتاری کے اعلان کے بعد انتظامیہ کے پسینے چھوٹ گئے، دیر شب ڈی ایم، ایس ایس پی، میئر و طلبا کی میٹنگ کے بعد طلبا دھرنا ختم کرنے پر رضامند ہو گئے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

علی گڑھ: گذشتہ 12 فروری سے باب سید پر شروع ہوا اے ایم یو طلبا کا دھرنا دیر شب ضلع و پولس انتظامیہ کے درمیان منعقدہ کئی گھنٹوں کی میٹنگ کے بعد تمام شرائط کو قبول کر لینے اور مزید کوئی کاروائی نہ کئے جانے کی یقین دہانی کرائے جانے کے بعد دیر شب ہی باب سید کو کھولتے ہوئے دھرنا ختم کئے جانے کا اعلان طلبا یونین کی جانب سے کیا گیا۔

حالانکہ اس سے قبل بھی ضلع و پولس انتظامیہ نے طلبا سے وائس چانسلر لاج پر میٹنگ کے دوران طلبا پر لگے تمام الزامات و رپورٹز کو واپس لئے جانے کا بھروسہ دلاتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کی اپیل کی تھی لیکن طلبا نے انتظامیہ سے تحریری طور پرشرائط کو دینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن انتطامیہ نے لکھ کر دینے سے انکارکر دیا تھا یہ دوسرا موقع تھا جب ضلع و پولس انتطامیہ نے دوبارہ طلبا سے میٹنگ کرنے کے بعد انہیں کسی کے بھی خلاف کاروائی نہ کئے جانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

اطلاعات کے مطابق طلبا کے دھرنے کے درمیان حالات نے اس وقت کروٹ بدلی جب نامزد طلبا میں سے ایک طالب علم کو شب میں مخبر کی اطلاع پر خاموشی کے ساتھ پولس نے اسے گھر سے گرفتار کرنے کے بعد تھانہ بنا دیوی روانہ کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کو تعزیرات ہند کی دفعہ 307 و دیگر الزامات میں جیل بھیج دیا۔ طالب علم کی گرفتاری کی اطلاع ملتے ہی ہزاروں کی تعداد میں طلبا کا جم غفیر باب سید پر ا جتماعی طور پر گرفتاری دینے کے لئے جمع ہو گیا۔

طلبا کی اجتماعی گرفتاری کی خبر ملتے ہی ضلع و پولس انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ بڑی تعداد میں پولس فورس انتطامیہ کی جانب سے یونیورسٹی کیمپس کے ارد گرد لگائے جانے و سیکیورٹی انتظامات کو مزید پختہ بنائے رکھنے کی غرض سے طلب کر لیا گیا۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ضلع مجسٹریٹ و ایس ایس پی کی جانب سے بیٹھ کر بات کرنے اور مسئلہ کا حل نکالنے کی کوششیں شروع کی گئیں۔ دیر شب وائس چانسلر لاج پر اے ایم یو انتظامیہ، ضلع و پولس افسران اور طلبا کی میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ کے دوران مسلم یونورسٹی طلبا یونین کے سابق صدر و مئیر محمد فرقان نے طلبا سے وعدہ کیا کہ اب کسی بھی صورت میں بغیر ٹھوس ثبوت اور بغیر جانچ کئے کوئی کاروائی کسی کے خلاف نہیں کی جائیگی اور بی اے سال دوئم کے جس طالب علم محمد طالب کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے ایک دو روز میں اس کی ضمانت منظور کرا لی جائے گی۔ واضح رہے مقدمہ سے ملک مخالف سرگرمیوں اور غداری سے متعلق دفعات کو پولس نے اپنی جانچ میں کوئی ثبوت نہ مل پانے کے سبب پہلے ہی ہٹا لیا تھا۔

واضح ہو کہ 12 فروری کی دوپہر مسلم منچ بنائے جانے کے منصوبہ کے تحت مسلم یونیورسٹی کیمپس میں طلبا یونین کی پہل پر ایک تقریب رکھی گئی تھی۔ اس میں تمام مسلم لیڈرشپ کو ایک جگہ جمع کئے جانے اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں مسلم نمائندگی کو عملی جامہ پہنائے جانے کی غرض سے ایک سیمنار کا انعقاد کیا جا رہا تھا۔ سمینار میں ایم آئی ایم کے قومی صدر و ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کو بھی شامل ہونا تھا۔ اس پر بی جے پی کارکنان نے اعتراض ظاہر کیا اور اے ایم یو کے طالب علم اجے سنگھ کے ساتھ بی جے پی میڈیا سیل کے انچارج نشت کمار شرما، مکیش لودھی و کئی دیگرافراد مخالفت کرنے کیمپس میں پہنچ گئے۔

بی جے پی کارکنان کے ساتھ ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کی رپورٹر بھی اے ایم یو کیمپس میں داخل ہوئی اور مسلم یونیورسٹی کو دہشت گردی کا اڈا کہہ کر لائیو رپورٹنگ کرنے لگے۔ اس پر طلبا مشتعل ہونے لگے اور طلبا یونین کے عہدیداران خبر ملتے ہی جائے وقوع پر پہنچے۔ اس کے بعد طلبا و بی جے پی لیڈران کے درمیان تصادم ہو گیا اور اس میں بی جے پی لیڈرکے ساتھ ان کی حمایت میں آنے والا طالب علم اجے سنگھ زخمی ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کیمپس میں ہنگامی حالات پیدا ہو گئے۔

بر سر اقتدار بی جے پی لیڈران کی تحریر پر پولس نے طلبا یونین عہدیداران سمیت 14 طلبا کے خلاف ملک سے غداری و قاتلانہ حملے سے متعلق دفعات میں مقدمہ درج کر لیا۔ پولس نے اے ایم یو طلبا کی تحریر بھی لینے سے انکار کر دیا۔ اپنے اوپر ظلم و زیادتی کا الزام لگاتے ہوئے مسلم یونیورسٹی طلبا یونین کے بینر تلے ہزاروں طلبا ضلع و وپولس انتظامیہ کے خلاف دھرنے پر بیٹھ گئے جو کہ 18 فروری کی دیر شب تک جاری رہا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔